اسلام آباد: وزیر مملکت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میر دوستن خان ڈومکی نے وزیر اعظم کی درخواست پر اپنا استعفیٰ واپس لینے سے انکار کردیا۔

گزشتہ روز دوستن خان ڈومکی نے ڈان کو بتایا کہ کہ جمعہ کو وزیر اعظم نے مجھے بلایا تھا اور استعفیٰ واپس لینے کا کہا تھا لیکن میں نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے وزارت چھوڑنے کے بعد وزارت کے ماتحت ادارے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ( پی ایس کیو سی اے) میں 16 اور اس سے اوپر کے گریڈ میں 35 تقرریاں کی گئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ عمل پہلے سے شروع ہوچکا تھا لیکن فہرستوں کو حتمی کرنے کے موقع پر پی ایس کیو سی اے کی انتظامیہ نے میں اس میں مداخلت کی۔

مزید پڑھیں: پانچ ریگولیٹری ادارے متعلقہ وزارتوں کے ماتحت

انہوں نے قومی احتساب بیور (نیب) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔

وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران شاہد خاقان عباسی نے انہیں بتایا کہ رانا تنویر حسین کو وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی منتقل کیا گیا کیونکہ وزارت دفاعی پیداوار کو وزارت دفاع میں ضم کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو اپنے استعفے کی وجہ بتادی ہے اور ان کی درخواست پر استعفیٰ کی واپسی سے بھی انکار کردیا ہے تاہم ان کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ دوستن خان ڈومکی نے 27 نومبر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ جیسے ہی انہوں نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) سمیت وزارت میں بدعنوانی کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو ان کی جدوجہد کو روکنے کے لیے وفاقی وزیر کو وزارت کا چارج دے دیا گیا۔

واضح رہے کہ رانا تنویر حسین وزیر برائے دفاعی پیداوار بننے سے قبل وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طور پرفرائض انجام دے چکے ہیں جبکہ حال ہی میں انہیں دوبارہ اس عہدے پر تقرر کردیا گیا۔

اپنا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد رانا تنویر حسین نے بھی این ٹی ایس کے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

دوستن خان ڈومکی نے اپنے استعفے میں بتایا کہ عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ عام عوام کی جانب سے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بدعنوانی، بدانتظامی کی متعدد شکایات موصول ہوئی جس کے بعد خاص طور پر این ٹی ایس، کوم سیٹ اور پی ایس کیو سی اے کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

خط میں وزیر مملکت نے کہا کہ وہ این ٹی ایس میں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ، کوم سیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی میں بد انتظامی اور بد عنوانی اور پی ایس کیو سی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی بے ضابطہ تقرری کے خلاف تحقیقات کر رہے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ ان کو حیرانگی ہوئی کہ ان کی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد روکنے کے لیے ایک وزیر کو میری وزارت کا چارج دے دیا گیا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ این ٹی ایس کے خلاف تین رکنی کمیٹی کے قیام کے بعد راتوں رات نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک نئے وزیر کو تعینات کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا این ٹی ایس کے خلاف تحقیقات تیز کرنے کا فیصلہ

این ٹی ایس نے کوم سیٹ کے منصوبے کا آغاز کیا تھا جو وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالجی کے ماتحت آتا ہے، مشرف کے دور میں اسے سیکیورٹی ایکسچینچ کمیشن میں ایک غیر سرکاری تنظیم ( این جی او) کے طور پررجسٹر کرایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ نیب بھی این ٹی ایس کے خلاف تحقیقات کررہا ہے، کچھ ہفتے قبل نیب کے چیئرمین نے راولپنڈی برانچ کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم دیا تھا کہ وہ این ٹی ایس کے خلاف متعدد شکایات موصول ہونے پر تحقیقات کا آغاز کریں۔


یہ خبر 11 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں