اسلام آباد: گزشتہ ماہ اسلام آباد میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر منعقد ہونے والی پاکستان اور چین کی 7ویں مشترکہ تعاون کونسل (جے سی سی) کے اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے چین کی جانب سے پاکستان پر ادائیگیوں پر سخت دباؤ ہے۔

اجلاس کے نکات میں شامل ہے کہ توانائی منصوبوں اور اس منصوبے کی وقت پر تکیمل اور پاکستان ریولونگ فنڈ کے قیام کے لیے 30 دن کے اندر چائینز اسپانسرز کو ادائیگیاں کرنے کا دباؤ ہے۔

جے سی سی اجلاس میں زور دیا گیا کہ پاکستان سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہونے والی بجلی کے واجبات فوری ادا کرے۔

دونوں ممالک کے مابین معاہدے کی رو سے سی پیک کے تحت توانائی منصوبے کے صنعتی بنیادوں پر آغاز کے ساتھ ہی 30 یوم کے اندر ریولونگ اکاؤنٹ کھولا جائے گا۔

یہ پڑھیں: پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ‘پاور جنریشن پالیسی 2015 کے فریم ورک کے تحت دوستانہ مذاکرات کے ذریعے مالی طور پر اور تعمیرات میں ضرورت کے مطابق توسیع کی جا سکتی ہے’۔

توانائی کے منصوبے پر مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیوجی) نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں موجودہ توانائی منصوبے کی کارکردگی، ماضی میں توانائی کی طلب اور توانائی کی مارکیٹ سے متعلق مشترکہ رپورٹ تیار کی جائے گی۔

جے سی سی میں طے پایا کہ حکومت سندھ تھر کول بلاک ون منصوبے کی تعمیرات اور آپریشن کے دوران پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔

چین نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سی پیک توانائی کے منصوبے پر ‘دیگر’ الیکڑک چارجز کی پالیسی نہیں اپنائے گا جبکہ مذکورہ مطالبے پر پاکستان بعد میں جواب دے گا۔

اجلاس میں چین کی جانب سے ایم ایل ون (ریلوے لائن پروجیکٹ) منصوبے کے لیے مالیاتی شرائط کو آسان بنانے کے لیے پاکستان کی درخواست کو فوری طور پر قبول نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت گوادر پورٹ سے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز

واضح رہے کہ ایم ایل ون پر دونوں ممالک کے مابین طے پایا تھا کہ کراچی سے پشاور تک ایک فاسٹ ٹریک بچھایا جائے گا جس پر ٹرین 260 کلومیڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکے گی لیکن بعدازاں رفتار کو کم کرکے 160 کلو میڑ فی گھنٹہ کردیا گیا۔

مذکورہ منصوبہ 8 ارب ڈالر سے زائد کا تھا جس کی بروقت تکیمل کے لیے پاکستان پر شدید دباؤ ہے۔

ایم ایل ون منصوبے کی اسٹریٹجک کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں ممالک نے منصوبے کے مالیاتی امور کو بروقت نمٹانے پر اتفاق کیا۔

دونوں جانب سے ایم ایل ون منصوبہ کی بروقت تکیمل پر زور دیا گیا جس کا پہلا مرحلہ 2018 کے ابتداء میں شروع ہوجائے گا جس میں ریلوے لائن کا ڈائزین، کمرشل کانٹریکٹ وغیرہ شامل ہیں۔

جے سی سی اجلاس میں پاکستان نے ایم ایل ون منصوبے کو طورخم تک توسیع کا منصوبہ بھی پیش کیا جس پر چینی حکام نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ کی توسیع کا فیصلہ تکینکی امور کا جائزہ لینے کے بعد لیا جا ئے گا۔

جے سی سی اجلاس نے ‘بڑے منصوبے’ کی تکمیل کے حوالے سے اطمیان کا اظہار کیا جبکہ چینی حکام نے منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کارکنوں کی حفاطت کےلیے اٹھائے گئے اقدامات پر پاکستان کی تعریف کی۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے تحت تجارتی سرگرمیوں کا آغاز

پاکستان نے چینی حکام کو یقین دلایا کہ کمرشل معاہدے کے مطابق مشینوں اور تعمیراتی اجزا پر ٹیکس کا معاملہ رواں برس کے اختتام سے پہلے حل کر لیا جائےگا۔

جے سی سی اجلاس نے ‘ایسٹ بے ایکسپریس وے فیز ٹو، گوادرپورٹ بریک واٹر اور گوادر پورٹ ڈریکنگ کی تکنیکی اور تجارتی رپورٹ تیارکرنے پر بھی زور دیا۔

جے سی سی کے 7 ویں اجلاس میں میرپور، مظفرآباد، مانسہرہ (ایم ایم ایم آف 200 کلومیڑ) منصوبے کی منظوری دی گئی۔

جے سی سی اجلاس کے دوران گودار میں 300 میگا واٹ کول فائر منصوبے کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر چینی حکام نے منصوبے کے لیے اپنی کمپنی کو تبدیل کرنے کی تجویز دی جس پر پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ زمین کے حصول کے لیے چینی حکام فنڈز منتقل کریں۔

چینی ماہرین نے بتایا کہ خیبر پختونحواحکومت نے رشاکئی انڈسٹریل ایریا منصوبے پر غیر معمولی توجہ دی ہے اور مقامی حکومت کے تعاون سے وہ رشاکئی منصوبہ وقت سے پہلے مکمل کرلیں گے ۔


یہ خبر 13 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں