Dawnnews Television Logo
فوٹو رائٹرز

پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

سی-پیک کے طویل المدتی منصوبے کی تفصیلات اصل دستاویزات سے لی گئی ہیں، یہ معلومات پہلی بار عوام کے سامنے آئی ہیں۔
اپ ڈیٹ 19 مئ 2017 09:53am

منصوبے کی آنکھیں زراعت پر ہیں

راہداری میں شامل شہروں کی نگرانی کا وسیع منصوبہ تیار ہوگا

چینی شہری ویزا کے بغیر داخل ہوسکیں گے

وزیراعظم نواز شریف ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں شرکت کے لیے ہفتے کے اختتام پر بیجنگ پہنچے جہاں ان کے ایجنڈے کا سب سے اہم حصہ پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے طویل المدتی پلان کو حتمی شکل دینا تھا۔

اصل دستاویز تک ڈان کو حاصل ہونے والی خصوصی رسائی کے بعد پہلی دفعہ اس کی تفصیلات کو عوامی طور پر بیان کیا جارہا ہے، اس حتمی پلان میں تفصیلی معلومات شامل ہیں کہ آنے والے پندرہ سالوں میں چین کے پاکستان کے حوالے سے کیا ارادے اور ترجیحات ہوں گی، جبکہ یہ تفصیلات اس سے قبل پہلے کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔

مثال کے طور پر ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی جہاں بیجوں کی اقسام سے لے کر زرعی ٹیکنالوجی کے مظاہرے کے منصوبے تشکیل دیئے جائیں گے۔

پشاور تا کراچی مانیٹرنگ اور نگرانی کا مکمل نظام قائم کیا جائے گا جہاں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سڑکوں اور اہم بازاروں میں 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کی سہولت موجود ہوگی۔

قومی فائبرآپٹک کا ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جائے گا جو نہ صرف ملک کے انٹرنیٹ ٹریفک بلکہ براڈکاسٹ ٹیلی ویژن کی مقامی علاقوں میں ڈسٹری بیوشن یقینی بنائے گا، یہ ٹیلی ویژن چینی کلچر سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے چینی میڈیا سے بھی تعاون کرے گا۔

وزیر اعظم نواز شریف ترک صدر رجب طیب اردگان سے 'ایک سڑک، ایک خطہ' کانفرنس کے دوران ملاقات کرتے ہوئے—فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم نواز شریف ترک صدر رجب طیب اردگان سے 'ایک سڑک، ایک خطہ' کانفرنس کے دوران ملاقات کرتے ہوئے—فوٹو: اے پی پی

طویل المدتی اس منصوبے کے 2 ورژن ہیں، جس میں سے ایک چین کے ڈویلپمنٹ بینک اور نیشنل ڈویلپمنٹ ریفارمز کمیشن نے تیار کیا ہے، جس کی تفصیل 231 صفحات پر مبنی ہے۔

مختصر دورانیے کے منصوبے کی تفصیل صرف 30 صفحات پر مبنی ہے، اس پر فروری 2017 کی تاریخ درج ہے، جب کہ اس میں صرف تعاون کے علاقوں کی تعارفی معلومات دی گئی ہیں، یہ صرف صوبائی حکومتوں کی جانب سے منظوری کے لیے تیار کیا گیا ہے، جب کہ جس صوبائی حکومت کو منصوبے کا مکمل ورژن دیا گیا، وہ صرف پنجاب حکومت ہے۔

یہ پلان پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں اور معاشرے میں چینی کمپنیوں اور تہذیب کی وسیع تر رسائی کی پیش گوئی کرتا ہے، اس منصوبے کے متوقع نتائج کی پاکستانی تاریخ میں اس حوالے سے کوئی مثال نہیں ملتی کہ پاکستان کی مقامی معیشت میں غیر ملکی کمپنیوں کی شراکت رہی ہو۔

ساتھ ہی پلان کے تحت کچھ علاقوں میں مارکیٹوں میں چینی کمپنیوں کا قیام یقینی بنانا ہے، جس طرح گھریلو استعمال کے آلات میں ہائیر، ٹیلی کمیونیکشن کے شعبے میں چائنا موبائل اور ہواوے جبکہ کان کنی اور معدنیات چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔

دیگر شعبے جیسے کہ ٹیکسٹائل و ملبوسات، سیمنٹ و تعمیری مٹیریل، فرٹیلائزر و زرعی ٹیکنالوجی میں نئی آمد کے لیے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور سازگار پالیسی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔

پلان کے مطابق، اس حوالے سے ایک اہم اقدام صنعتی پارکس یا خصوصی معاشی زونز کا قیام ہے جو ’پانی کی فراہمی، بہترین انفرااسٹرکچر، توانائی کی مطلوبہ فراہمی اور سیلف سروس پاور کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بناسکے‘۔

تاہم سی پیک کے بظاہر اہم ترین صنعتی، ٹرانسپورٹ، پاور پلانٹ اور شاہراہوں کے عمومی تاثر کے اس پلان کا اہم ترین حصہ زراعت ہے اور اس پلان کے تحت زراعت کے کئی منصوبوں پر کام شامل ہے۔

کوریڈور چین کے خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والے صوبے سنکیانگ سے پاکستان کی جغرافیائی حدود سے منسلک ہوگا اور یوں جنوبی سنکیانگ پاکستان سے زمینی رابطے میں آجائے گا، اسے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جیسے تابکاری کے علاقوں میں چین کے کاشغر، تومشوق، اتوشی اور سنکیانگ کا علاقہ ایکٹو آف کزلسو، جب کہ پاکستان کے علاقے اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں سمیت گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، یہ علاقے ایک ہی خطے کی تین گزرگاہوں، 2 محوری مرکزوں اور 5 متحرک زونز پر مبنی ہیں، جو راہداری کی ٹریفک کے لیے نہایت اہم ہیں
کوریڈور چین کے خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والے صوبے سنکیانگ سے پاکستان کی جغرافیائی حدود سے منسلک ہوگا اور یوں جنوبی سنکیانگ پاکستان سے زمینی رابطے میں آجائے گا، اسے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جیسے تابکاری کے علاقوں میں چین کے کاشغر، تومشوق، اتوشی اور سنکیانگ کا علاقہ ایکٹو آف کزلسو، جب کہ پاکستان کے علاقے اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں سمیت گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، یہ علاقے ایک ہی خطے کی تین گزرگاہوں، 2 محوری مرکزوں اور 5 متحرک زونز پر مبنی ہیں، جو راہداری کی ٹریفک کے لیے نہایت اہم ہیں

زراعت

زراعت کے شعبے کے لیے اس پلان میں سپلائی چین کے ایک سرے سے دوسرے تک کی رابطہ کاری کے بارے میں خلاصہ شامل ہے، بیجوں کی اور دیگر چیزوں جیسے کھاد، پیسے اور کیڑے مار دواؤں کی فراہمی تک، چینی کمپنیاں اپنے فارمز اور پھلوں، سبزیوں اور اناج کی پروسسنگ کے لیے قائم ہونے والے مراکز کا کام خود سنبھالیں گی جبکہ لاجسٹک کمپنیاں زرعی پیداوار کے لیے بڑے زخیروں اور ترسیلات کے انتظامات سنبھالیں گی۔

یہاں ان مواقع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کئی مسائل سے گھرے پاکستان کے زرعی شعبے میں چینی کمپنیوں کی آمد سے حاصل کیے جا سکیں گے مثلاً، "کولڈ چین لاجسٹک اور پراسسنگ مراکز کی کمی کے باعث، کٹائی اور ترسیلات کے دوران 50 فیصد زرعی پیداوار خراب ہو جاتی ہیں"۔


منصوبے کی نگرانی کے لیے کراچی سے پشاور تک 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کا سیکیورٹی سسٹم بنایا جائے گا، جو سڑکوں سمیت مصروف کاروباری مقامات اور امن و امان کی صورتحال کی ریکارڈنگ کرے گا


زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو چینی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی سطح پر مدد کی پیشکش کی جائے گی۔ ان کی چینی حکومت کی مختلف وزارتوں اور چائنا ڈیولپمنٹ بینک سے زیادہ تر آزاد سرمایہ اور قرضے حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ 'چینی کمپنیوں کے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے سینئر نمائندگان کے ساتھ رابطے میں مدد’ فراہم کرنے کے میکنیزم کے بارے میں بھی تفصیل شامل ہے۔

چین کی حکومت، ’زرعی بیرونی سرمایہ کاری کے قرضوں پر رعایتی سود کے لیے قومی خصوصی فنڈز کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ طویل مدتی تناظر میں دیکھیں تو نئے اقسام کی سرمایہ کاریوں، جیسے کنسورشیم قرضوں، مشترکہ نجی ایکوئٹی اور مشترکہ قرضے کے اجرا، مختلف ذرائع اور غیر مرکزیت کے حامل مالی رسک کے ذریعے فنڈز میں اضافے سے سرمایہ کاری رسک مزید بڑھ جائے گا۔

پلان میں لائیو اسٹاک کی افزائش نسل اور دیگر جدید تقاضوں کو متعارف کرنے اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشینوں اور سائنسی طریقوں کو پاکستان میں لانے کے لیے ژن جیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کورس سے خدمات لینے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہ اس اہم موقع کو کاشغر پریفیکچر کی مدد کی صورت میں دیکھتے ہیں، جو کہ ژن جیانگ کے بااختیار زون کے اندر کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہے، جہاں 50 فیصد غربت ہے اور طویل فاصلے ہونے کی وجہ سے بڑی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور ترقی کی راہوں میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ 2012 میں پریفیکچر کی زراعت، جنگلات، جانوروں کی خانہ داری اور فشریز میں کل پیداوار کا حجم 5 ارب ڈالر سے تھوڑا ہی زیادہ رہا جبکہ 2010 میں یہاں کی آبادی 40 لاکھ سے بھی کم تھی، شاید ہی اس مارکیٹ سے پاکستان کو زبردست حد تک فائدہ حاصل ہو۔

مگر چینیوں کے لیے، پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے پیچھے فائدے چھپے ہیں۔ مزید برآں مقامی مارکیٹ سے وابستہ ہونے سے چینی کمپنیاں کئی منافع بخش فوائد حاصل کر سکتی ہیں۔ پلان میں بندرگاہوں سے زرعی اشیا کی برآمدات کے حوالے سے چند خلاصے تو ملتے ہیں، مگر زیادہ تر توجہ کاشغر پریفیکچر اور ژن جیانگ پروڈکشن کورز اور ساتھ ہی مقامی مارکیٹ میں کام کرنے پر دیئے جانے والے منافع بخش مواقع پر مرکوز کی گئی ہے۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

پلان کے اندر مارکیٹ کے بارے میں مناسب تفصیلات بھی شامل ہیں۔ مارکیٹ سے 17 خصوصی منصوبوں سمیت 10 اہم منصوبوں کو بھی واضح کیا گیا ہے، جن میں ابتدائی طور پر ’8 لاکھ ٹن کے سالانہ پیداوار والے’ ایک این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ کی تعمیر شامل ہے۔ کمپنیوں کو، کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان جیسے ٹریکٹر، ’پودوں کے مؤثر تحفظ کی مشینری، کم توانائی استعمال کرنے والے پمپ کے سازوسامان، ڈرپ آبپاشی کے ذریعے فصل اگانے کے نظام کا سازوسامان’ اور فصل کی بوائی اور کٹائی کی مشینری کرائے پر دینے کے لیے' قائم کیا جائے گا۔

سکھر میں 2 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار دینے والے گوشت پروسسنگ پلانٹس اور ہر سال 2 لاکھ ٹن دودھ پروسس کرنے والے دو نمائشی پلانٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کاشتکاری کی بات کریں تو، زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور آبپاشی کے نمائشی منصوبوں کے لیے 6 ہزار 5 سو ایکڑ سے زیادہ زمین، زیادہ تر پنجاب میں مختص ہوگی۔ ٹرانسپورٹ اور گودام کے شعبے کی بات کریں تو پلان میں ایک ’ملکی سطح پر لاجسٹکس نیٹ ورک بنانے اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان گوداموں اور اناج، سبزیوں اور پھلوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے تقسیم کاری کے نیٹ ورک میں توسیع کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور گوادر میں گودام تعمیر کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں کراچی، لاہور اور ایک دوسرا گوادر میں تعمیر کیے جائیں گے اور 2026 اور 2030 کے درمیان کراچی، لاہور اور پشاور میں بھی ایک ایک گودام تعمیر کیا جائے گا۔


دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصوبے میں خصوصی طور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دلچسپی لے گئی ہے، مگر اس دلچسپی کا زیادہ تر انحصار سوتی، اونی اور کھاردار کپڑوں پر ہوگا۔


اسد آباد، اسلام آباد، لاہور اور گوادر میں سبزیوں کے پراسسنگ پلانٹ بنائے جائیں گے، جن کی سالانہ پیداوار 2 ہزار ہوگی، 10 ہزار ٹن کی پیداوار کے حامل پھلوں کے جوس اور جیم کے پلانٹ اور 10 لاکھ ٹن پیداوار دینے والے ناج کے پراسسنگ پلانٹ بنائے جائیں۔ سالانہ 1 لاکھ پیداوار دینے والے کاٹن کے پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر بھی پہلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔

حکومت کی جانب سے حاصل کردہ زمینوں کو چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیوں کو کرائے پر دیئے جانے اور کاشتکاری اور بریڈنگ مراکز کی تعمیرات کے ذریعے کسانوں اور کاشتکاروں کو کاشتکاری اور بریڈنگ کے جدید طریقوں سے آراستہ کیا جائے گا۔

زیادہ پیداوار دینے والے اعلیٰ معیار کے بیجوں کے حوالے سے پلان میں کہا گیا کہ ’ہم حکومت کی جانب سے دی جانے والی زمین کو چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپبیوں کو کرائے پر دینے اور کاشتکاری اور افزائش نسل کے جدی حوالے سے تعمیر کردہ مراکز کو استعمال میں لاتے ہوئے جدید طریقوں سے آراستہ کریں گے'۔

زرعی سازو سامان کی پیداوار کے بارے میں کہا گیا، 'ہر شعبے میں چینی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کریں گی۔ چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں کھاد، کیڑے مار دواؤں اور مویشیوں کے چارے کی پیداوار کے لیے کارخانے قائم کریں گی۔'

گودام کے موضوع پر کہا گیا، 'چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں، مشترکہ منصوبوں، شراکت داری یا کثیر سرمایہ کاری کی صورت میں، گوداموں کی تین مرحلوں میں تعمیر میں پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کریں گی (جن میں پرچیز اور اسٹوریج، ٹرانزٹ گودام اور پورٹ گودام شامل ہیں)'۔

اس کے بعد کاروبار کے بارے میں بات کی گئی، 'ہم پاکستانی زرعی اشیا کی درآمدگی کو بہتر کرنے اور برآمدگی کی استعداد کو بڑھانے اور زرعی اشیا کے کاروبار کو تیز کرنے کے لیے سرگرم ہو کر ارد گرد کے ملکوں کے اندر کاشتکاری پر کام کریں گے'۔


دستاویزات میں منصوبے میں شامل ایک خصوصی اور دلچسپ باب کا ذکر بھی کیا گیا، جس میں ساحلی پٹی کے علاقوں میں سمندری سیاحت وآتش بازی کے سیاحتی منصوبے، پارکس، کھیل کے میدانوں، تھیٹرز اور گولف کورسز کی تعمیر، موسم گرما و سرما کے حساب سے ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس جیسے منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔


کسی کسی جگہ یہ پلان چین میں موجود سرمایہ کاروں سے ہم کلام ہوتا نظر آتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ 'چینی کمپنیوں کو پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مربوط تعاون اور شفاف دو طرفہ مقابلے اور باہمی تعاون کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔' انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی حکمت عملی کے حامل شراکت داروں کی تلاش کے لیے اقدام کریں۔

سیکیورٹی اقدامات کے طور پر، کمپنیوں کو مقامی لوگوں کے مذاہب اور رسومات کا احترام، لوگوں سے برابری کا سلوک کرنے اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا جائے گا۔ انہیں مقامی ملازمتوں میں اضافے ذیلی معاہدوں اور کنسورشیم کے ذریعے مقامی معاشرے کے لیے کام کرنے کا بھی مشورہ دیا جائے گا۔ پلان میں زراعت کے موضوع پر لکھے باب کی آخری لائن میں درج ہے کہ چینی حکومت اہم ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ حفاظتی تعاون کو مضبوط کرے گی، تا کہ ان دہشتگرد کارروائیوں سے مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جاسکے جو بیرون ملک چینی کمپنیوں اور ان کے اسٹاف کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

صنعت

یہ منصوبہ ملک کو تین صنعتی حصوں میں تقسیم کرتا ہے؛ مغربی اور شمال مغربی، وسطی اور جنوبی حصہ۔

ان حصوں میں سے ہر ایک زون نامزد صنعتی پارکس میں سے مخصوص صنعتیں وصول کرے گا جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا۔

مغربی اور شمال مغربی حصہ جو زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر مشتمل ہے ان علاقوں کو معدنیات نکالنے کے حوالے سے ظاہر کیا گیا ہے خصوصاَ کروم کچ دھات، سونا اور ہیرے کے حصول کے لیے۔

ایک اور معدنیات جس کے بارے میں یہ منصوبہ بتاتا ہے وہ سنگ مرمر ہے اور چین پاکستان سے سنگ مرمر خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال 80 ہزار ٹن سنگ مرمر خریدتا ہے۔

منصوبے کے مطابق شمال میں گلگت اور کوہستان کے علاقے سے لے کر جنوب میں خضدار تک 12 سنگ مر مر اور گرینائٹ کی پروسیسنگ کے کارخانے لگائے جائیں گے۔

وسطی زون کو ٹیکسٹائل، گھریلو استعمال کی اشیاء اور سیمنٹ کی صنعتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور چار علاقوں داؤد خیل، خوشاب، عیسیٰ خیل اور میاںوالی کو علیحدہ سے ظاہر کیا گیا ہے جہاں مستقبل میں سیمنٹ تیار کی جائے گی۔


منصوبے کے تحت پشاور میں پائلٹ محفوظ شہر بنائے جانے کا بھی ذکر ہے، جہاں مغربی پاکستان کے علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال قدرے بدتر ہے۔


سیمنٹ کا معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سیمنٹ کی صلاحیت سے مالا مال ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں سیمنٹ پراسیس کی ٹرانسفورمیشن کے لیے چین کے پاس سرمایہ کاری اور تعاون کے بڑے مواقع موجود ہوں گے۔

جنوبی زون میں یہ منصوبہ تجویز دیتا ہے کہ 'کراچی اور اس کی بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں پیٹروکیمیکل، لوہے اور اسٹیل کی صنعت، بندرگاہ کی صنعت، انجینیئرنگ مشینری کی صنعت، تجارتی پروسیسنگ اور آٹو پارٹس تیار کرنے کی صنعت تعمیر کرے'۔

حیران کن طور پر یہ اس رپورٹ کا واحد حصہ ہے جس میں آٹو انڈسٹری کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے حالانکہ یہ صنعت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔

سی پیک منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ کے ایک راستے کا روٹ—فوٹو: اے ایف پی
سی پیک منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ کے ایک راستے کا روٹ—فوٹو: اے ایف پی

اس خاموشی کی وجہ یا تو چین کی طرف سے اس صنعت میں عدم دلچسپی ہوسکتی ہے یا پھر سفارتی احتیاط کیونکہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر مکمل طور پر جاپانی کمپنیوں (ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی) کا غلبہ ہے۔

گوادر بھی اسی جنوبی زون کا حصہ ہے جو افغانستان اور بلوچستان کو ملاتا ہے اور ایک براہ راست غیر پیمائش شدہ حصہ ہے۔

سی پیک کا داخلی راستہ اور اہم گیٹ وے ہونے کی حیثیت سے یہ منصوبہ تجویز کرتا ہے کہ گوادر میں کیمیائی اور ہیوی انڈسٹریز کی ایک بنیاد تعمیر کی جائے، جن میں لوہے اور اسٹیل کی صنعت اور پیٹروکیمیکل کی صنعت شامل ہے۔

منصوبے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ چینی کمپنیاں اس علاقے کا جغرافیائی فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی سرمایہ کاری اور تعمیرات کا آغاز کر چکی ہیں جہاں وہ مشرق وسطیٰ سے خام تیل جبکہ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ سے لوہا اور کوکنگ کول کے ذخائر درآمد کرسکیں گی جبکہ وہ پورٹ پر ہی ان کی پروسیسنگ کرنے کے بعد جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کی مقامی منڈیوں تک سپلائی کر دیں گی۔

یہ منصوبہ سب سے زیادہ دلچسپی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ظاہر کرتا ہے جہاں اس کی توجہ کا مرکز سوتی اور معمولی کپڑوں پر ہے۔

پلان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کا صوبہ سنکیانگ پہلے ہی اعلیٰ پیداواری معیار حاصل کر چکا ہے لہٰذا چین پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کی ترقی کے لیے پاکستان کی زیادہ تر منڈیوں تک سستا خام مال پہنچا سکتا ہے جو کہ کاشغر میں اضافی افرادی قوت کو بروئے کار لانے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔

پلان کے تحت بننے والے نئے انڈسٹریل پارکس میں سرمایہ کاری کے لیے کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔

جن شعبوں میں ان ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی ان میں زمین، ٹیکس، لا جسٹکس اینڈ سروسز اس کے علاوہ انٹرپرائز انکم ٹیکس، ٹیرف میں کمی اور مستثنیٰ اور سیلز ٹیکس کی شرح شامل ہیں۔

یوم پاکستان کی تقریب میں چین کی تینوں افواج پہلی بار شامل ہوئیں—فوٹو: اے ایف پی
یوم پاکستان کی تقریب میں چین کی تینوں افواج پہلی بار شامل ہوئیں—فوٹو: اے ایف پی

فائبر آپٹکس اور سرویلیئنس

جب سے پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے تب سے چینی حکومت کی اولین ترجیحات میں پاکستان اور چین کو فائبر آپٹک کے ذریعے جوڑنا شامل ہے۔

اس حوالے سے جولائی 2013 میں ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوئے جب سی پیک ایک معمولی روڈ سے زیادہ کچھ نہ تھا جس نے کاشغر کو گوادر سے ملانا تھا تاہم اس منصوبے سے ظاہر ہوا کہ یہ پلان ایک عام فائبر آپٹک کے لنک سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

چین کی پاکستان کے ساتھ فائبر آپٹک کے زمینی لنک کی خواہش کی مختلف وجوہات ہیں جن میں اس کی محدود تعداد میں سب میرین لینڈنگ اسٹیشنز کی موجودگی اور انٹرنیشنل گیٹ وے ایکسچینجز شامل ہیں جوکہ مستقبل میں انٹرنیٹ ٹریفک میں اضافے کی صورت میں رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے اور یہ چین کے مغربی صوبوں کے لیے درست ہے۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

مزید برآں پلان کے مطابق براعظم افریقہ میں چین کی ٹیلی کام سروسز کو یورپ منتقل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا مجموعی طور پر سیکیورٹی کے پوشیدہ خطرات موجود ہیں۔

پاکستان کے پاس اپنے ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے چار سب میرین کیبلز ہیں جبکہ صرف ایک ہی سب میرین لینڈنگ اسٹیشن ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

لہٰذا اس منصوبے سے یہ بات عیاں ہے کہ ایک زمینی کیبل خنجراب پاس سے گزر کر اسلام آباد سے ملے گی جبکہ ایک سب میرین اسٹیشن گوادر میں بنایا جائے گا جو سکھر سے ملے گا۔

یہاں سے یہ دونوں کیبل اسلام آباد کے ساتھ ساتھ پورے سے منسلک ہوجائیں گی۔

یہ وسیع ہونے والی بینڈ ودتھ سے ملک میں ڈیجیٹل ایچ ڈی ٹیلی ویژن کی علاقائی نشریات کا آغاز ہوسکے گا جسے ڈیجیٹل ٹیلی وژن ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈکاسٹنگ (ڈی ٹی ایم بی) کہا جاتا ہے۔

یہ ثقافت کی منتقلی کا ذریعہ ہے جس سے مستقبل میں پاکستان اور چینی ذرائع ابلاغ کا باہمی تعاون پاکستان میں چینی ثقافت اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہم اور روایتی دوستی کو فروغ دینے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔


راہداری کے حوالے سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکام اس بات پر بضد ہیں کہ چین گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام شروع کرے، جب کہ چینی حکام چاہتے ہیں کہ پہلے ایسٹ بے ایکسپریس وے کا کام مکمل کیا جائے۔


تاہم اس منصوبے میں اس بات کا تذکرہ نہیں ملتا کہ یہ نظام نشریاتی میڈیا کے مواد کو کس طرح کنٹرول کرے گا اور نہ ہی یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے ذرائع ابلاغ کے درمیان تعاون کے بارے میں کچھ بتاتا ہے۔

پلان کے تحت خنجراب میں سرحد کی الیکٹرانک نگرانی اور کنٹرول سسٹم کے قیام کے ساتھ ساتھ سیف سٹی پروجیکٹس چلانے کا بھی منصوبہ ہے۔

سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے زیادہ تر شہری علاقوں میں اہم شاہراہوں، پر خطر علاقوں اور پر ہجوم مقامات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایکسپلوزیو ڈٹیکٹرز اور اسکینرز لگائے جائیں گے تاکہ ان علاقوں میں براہ راست نگرانی اور 24 گھنٹے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جا سکے۔

ان تمام آلات کے سگنلز کو نگرانی کے نظام سے کمانڈ سینٹر تک پہنچایا جائے گا تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ کمانڈ سینٹر میں کون لوگ ہوں گے، کس طرح کے سنگلز ہوں گے اور ان کا جواب کون دے گا۔

منصوبے کے مطابق پشاور میں ایک پائلٹ سیف سٹی کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے جسے شمال مشرقی پاکستان میں شدید سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے جبکہ بعد ازاں اس پروجیکٹ کا دائرہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی تک بھی پھیلایا جائے گا اور ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئرز کیا جائے گا اور ریکارڈ بھی کیا جائے گا۔

سیاحت و تفریح

اس منصوبے کے سب سے دلچسپ چیپٹرز میں سے ایک 'ساحلی سیاحت' کی صنعت کی ترقی ہے۔

پلان میں ساحلی لطف اندوزی کی صنعت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بوٹ ہارف، کروز ہوم پورٹس، نائٹ لائف، سٹی پارکس، عوامی تفریحی چوکوں، تھیٹرز، گالف کورسز، ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس شامل ہے۔

یہ ساحلی پٹی کیٹی بندر سے جیوانی تک ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے یہاں ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پلان میں منصوبوں کی حیران کن تفصیلات شامل کی گئی ہیں مثال کے طور پر گوادر میں بین الاقوامی کروز کلب ہوگا جو میرین سیاحوں کو پرائیویٹ کمرے مہیا کرے گا جہاں وہ ایسا محسوس کر سکیں گے کہ وہ سمندر کے اندر رہ رہے ہیں۔

منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوسٹل ووکیشن پروڈکٹس کی ترقی کے لیے اسلامی کلچر، تاریخی کلچر، فوک کلچر اور میرین کلچر کو یکجا کیا جائے گا یعنی یہاں پر بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

اورماڑا کےلیے یہ منصوبہ منفرد تفریحی سرگرمیوں کے لیے تعمیرات کی تجویز دیتا ہے جو قدرتی، دلچسپ، شراکتی اور پر کشش خصوصیات کے حصول کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

کیٹی بندر کے لیے جنگلی حیات کی پناہ گاہوں، ایک ایکوریم اور ایک نباتاتی باغ کی تعمیر کی تجویز اس منصوبے میں شامل ہے۔

سونمیانی کے لیے اس منصوبے کے تحت کوسٹل بیچ، وسیع گرین وے، کوسٹل ولا، کار کیمپ، ایس پی اے، کھیل کا میدان اور سی فوڈ کھانے کی اسٹریٹ تعمیر کی جا سکتی ہے۔

یہ ایک وسیع وژن ہے تاہم اس منصوبے کے اختتام پر یہ کہا گیا ہے پاکستان کو چین کے ساتھ ویزا فری سیاحت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ پاکستان میں چینی سیاحوں کو زیادہ آسان اور معاون ماحول میسر آسکے۔

تاہم پلان میں چین جانے والے پاکستانی شہریوں کے ساتھ اسی طرح کے انتظامات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔

مالیات اور خطرات

کسی بھی منصوبے میں مالی وسائل کا سوال ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے مالیاتی شعبے، حکومتی ڈیبٹ مارکیٹ، کمرشل بینکنگ کی گہرائی اور مالیاتی نظام کی مجموعی صحت پر تبادلہ خیال کے دوران چائنا ڈویلپمنٹ بینک نے ایک طویل المعیاد منصوبہ تیار کیا۔ جب پاکستانی معیشت میں طویل المعیاد سرمایہ کاری کے دوران سامنے آنے والے خطرات کی بات ہو تو یہ بہت غیرجذباتی قسم کا منصوبہ ہے۔

اس منصوبے میں سیاست اور سیکیورٹی کو بڑے خطرات سمجھا گیا ہے اور اسے تیار کرنے والوں نے لکھا ہے 'پاکستانی سیاست میں متعدد عناصر اثر انداز ہوتے ہیں، جسے مخالف جماعتیں، مذہب، قبائل، دہشت گرد اور مغربی مداخلت، حالیہ برسوں کے دوران سیکیورٹی صورتحال بدترین رہی ہے'۔ اگلا بڑا خطرہ حیران کن طور پر افراط زر ہے جس کے بارے میں منصوبے میں لکھا ہے کہ یہ گزشتہ چھ سال کے دوران اوسطاً 11.6 فیصد رہی ہے ' بلند افراط زر کی شرح کا مطلب منصوبے کی لاگت میں اضافہ اور منافع میں کمی ہے'۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں اور جب راہداری کے اخراجات کی واپسی شروع ہوجائے ' تو پاکستان کے لیے کم شرح سود یا بلاسود قرضوں مہیا کیے جائیں'، مگر یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ کوئی مفت سہولت نہیں 'پاکستان کی وفاقی اور متعلقہ مقامی حکومتوں کو بھی مالیات کی ذمہ داری کا اپنا بوجھ اٹھانے اس کے لیے سورن گارنٹی بانڈز کا اجراءکیا جائے، دوسری جانب راہداری کی تعمیر کے لیے حکومتی فنڈز کے حصے اور پیمانے کو مالیاتی بجٹ میں بہتر کیا جائے۔

عکاسی: ثنا ناصر، ہیرالڈ
عکاسی: ثنا ناصر، ہیرالڈ

اگر مالیاتی ضمانت کا مطالبہ کیا جائے تو 'اہم انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے کریڈٹ ان ہانسمنٹ سپورٹ مہیا کی جائے، مالیاتی گنجائش کو بڑھایا جائے اور لین داروں کے مفادات کو تحفظ دیا جائے'۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تخمینہ جات پر انحصار کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ سالانہ دو ارب ڈالرز سے زائد کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت پر دباﺅ بڑھائے بغیر جذب نہیں ہوسکتی 'یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں چین کی سالانہ زیادہ سے زیادہ براہ راست سرمایہ کاری ایک ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہونی چاہئے'۔ اسی طرح بات کا اختتام اس پر کیا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے ہر سال ترجیحی قرضوں کی حد ایک ارب ڈالرز جبکہ غیر ترجیحی قرضوں کی ڈیڑھ ارب ڈالرز سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

اس منصوبے میں چینی کمپنیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدامات کریں ' پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی کاروباری تعاون بنیادی طور پر حکومت کے ساتھ بطور تعاون کیا جانا چاہئے، بینکوں کا کردار ثالثی ایجنٹ جبکہ کاروباری افراد بنیادی سہارا ہوں گے'۔ اسی طرح مزید کہا گیا ' پاکستان کے مالیاتی اور معاشی شعبوں میں تعاون کا مقصد چین کی سفارتی حکمت عملی کی مدد کرنا ہوگا'۔

اس منصوبے کے لیے ایک اور بڑا خطرہ زرمبادلہ کو قرار دیا گیا، پاکستان کی زرمبادلہ کے حصول کی صلاحت کے حوالے سے کمزوری کی جانب توجہ دلائی گئی اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے منصوبے میں آر ایم بی اور پاکستانی روپے کے درمیان تبادلے کے میکنزم میں تین گنا اضافے سے تیس ارب یوآن تک پہنچانے کی تجوزی دی گئی، اسی طرح خریداری کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی بجائے آر ایم بی اور روپے کو ترجیح دی جائے گی، ہانگ کانگ مارکیٹ کو آر ایم بی بانڈز کے لیے استعمال اور کاروباری قرضوں کو وسائل کے وسیع صف بندی میں تقسیم کیا جائے۔ پاکستانی معیشت میں آر ایم بی کے بڑھتا کردار اس مجوزہ منصوبے کے اقدامات پر عملدرآمد کی واضح علامت ہے۔

نتیجہ

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پاکستان اس منصوبے کی تکمیل پرکتنی توجہ سے

کام کو آگے بڑھائے گا اور یہ بھی کہ پاکستان کو اس کے لیے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

تاہم منصوبے میں شامل دلچسپی کے مرکزی نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی معیشت میں بہتری کے لیے چین کی جانب سے آلات کی فراہمی اولین ترجیح ہے، اس کے بعد چین کے لیے سنکیانگ کے ٹیکسٹائل خام مال کو استعمال میں لانا ہے، جب کہ گارمنٹ اور ویلیو ایڈڈ جیسے شعبوں کو بھی چینی ٹیکنالوجی میں ضم کرنے جیسے معاملات بھی چین کے لیے اہم ہیں۔

ترجیحات میں اگلا ہدف مقامی صنعت کی بہتری ہے، خصوصی طور پر سیمنٹ اور گھریلو استمال کی اشیاء جیسے منصوبے ہیں، جن سے متعلق منصوبے کے اندر مکمل تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔


منصوبے کے تحت پاکستان کے کچھ علاقوں میں پہلے سے موجود چین کی کچھ کمپنیز مثلا گھریلو استعمال کے آلات تیار کرنے والی ہائر، موبائل کمیونی کیشن کی چائنا موبائل اور ہواوے، جب کہ کان کنی اور معدنیات کی تلاش کا کام کرنے والی چائنا میٹالگریکل کارپوریشن (ایم سی سی) کی مارکیٹ کو تیار کیا جا رہا ہے


آخر میں منصوبے کے تحت مالی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے چینی کرنسی کوعالمگیریت کے طور پر آگے بڑھانا ہے، اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں داخل ہونے والے چینی کاروباری اداروں کو درپیش خطرات کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ گوادرپہلے ہی اقتصادی وسعت کے لیےاہم مرکز کی حیثیت حاصل کرچکا ہے، جسے بنیادی طور پربلوچستان اور افغانستان سے قدرتی معدنیات کی منتقلی کے لیے پورٹ جب کہ جنوبی افریقا سے نیوزی لینڈ تک بحر ہند کے ذریعے وسیع تجارتی مقاصد کے طورپرایک منڈی کی حیثیت سے استعمال کیا جاسکے گا۔

گوادر کے ذریعے چین کی بیرونی تجارت بھی ہوگی یا نہیں، اس حوالے سے منصوبے کے مندرجات میں کوئی ذکر نہیں، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے چین پر اس بات کا زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پربھی کام کریں، جب کہ اس کے برعکس چینی حکام ایسٹ بے ایکسپریس کی جلد تکمیل پر زور دے رہے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چینی ادارے صرف سی پیک منصوبے تک محدود نہیں ہیں، اس کی تازہ مثال چینی اداروں کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) اور کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کے شیئرز کا حصول ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک ترقی کے لیے کھلنے والا صرف پہلا دروازہ ہے، اب اس دروازے کے ذریعے کیا کچھ داخل ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔


اس پلان پر کام نومبر 2013 میں شروع پر (تفصیلات پچھلی ٹیب میں دیکھیں)، جب چینی حکومت کی ڈولپمنٹ اور ری فارم کمیشن (این ڈی آر سی) نے چائنا ڈولپمنٹ بینک (سی ڈی بی) پاکستان کے ساتھ کام کرنے، جس کا آغاز اسی سال مئی میں ہو چکا تھا، کے حوالے سے تفصیلی منصوبہ تیار کرنے کو کہا۔ اگلے دو سال، دسمبر 2015 تک، سی ڈی بی نے این ڈی آر سی کی ٹیموں اور ٹرانسپورٹ، نیشنل اینرجی ایڈمنسٹریشن اور چائنا ٹؤرازم پلاننگ انسٹی ٹیوٹ کی وزارتوں کے ساتھ کام مل کر اگلے 15 سالوں 2030 تک کے لیے تفصیلی پلان کی تیاری پر کام کیا، جو چینی کمپنیوں کے لیے پاکستان کی معیشت کے ہر شعبے -نجی و سرکاری- میں دروازے کھول دے گی۔

اس دوران چینی ماہرین نے پاکستان اور ژنجیانگ کے متعدد دورے بھی کیے، تمام علاقوں کی صورتحال کا تفصیلی نقشہ کھینچا، جو پہلے آئے انہیں ترجیح دی گئی اور ان تمام پوشیدہ خطرات، رکاوٹوں اور خدشات کا پتہ چلایا گیا جن کی توقع اس پورے مرحلے کے دوران کی جاسکتی ہے۔

حکومت پاکستان کو سب سے پہلے یہ رپورٹ جون 2015 میں دی گئی، جہاں چند ماہ تک اس پر مٹی کے تہہ جمی رہی۔ چینی حکومت کی جانب سے یاد دلانے پر پاکستان کی ایک ٹیم 12 نومبر 2016 کو بیجینگ میں اپنے ہم منصب افراد سے ملی اور انہیں اپنا رد عمل دیا۔ 2 دسمبر کو ایک خصوصی دو طرفہ اجلاس منعقد کیا گیا اور پلان کو 29 دسمبر کو آخری شکل دی گئی۔ اس کے بعد جا کر دونوں طرف سے پلان پر اتفاق ہوا جبکہ اعلیٰ حکام، پاکستان کے کیس میں وزیر اعظم، کی جانب سے آخری دستخط 31 مارچ تک ہونی تھیں۔ ڈیڈ لائن نکل گئی اور وزیر اعظم چونکہ بیجینگ میں ہیں تو اب دستخط کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اسی اثنا میں، ایک چھوٹی سی فارملیٹی اہمیت کی حامل بن گئی۔ آخری شکل دیے جانے والے پلان کے لیے صوبائی حکومتوں کی رضامندی ضروری تھی۔ اسی مقصد کے لیے پلان کا ایک دوسرا مسودہ تیار کیا گیا جو کہ صوبائی حکام کے حوالے کیا جاسکے۔ وہ مسودہ 31 صفحوں پر مشتمل تھا اور تفصیلات خارج کر دی گئیں، اور صرف دنوں ملکوں کے درمیان ’باہمی تعاون کے شعبوں’ کی سطحی معلومات فراہم کی گئی۔

سی ڈی بی کی جانب سے مرتب کردہ مسودہ 231 صفحوں پر مشتمل تھا، اور جس میں معیشت کے ہر شعبے اور معاشرے میں اپنے منصوبوں کو شروع کرنے سے ممکنہ خدشات اور مواقع کے بارے میں تفصیلات شامل تھیں۔ اگلی ڈیڑھ دہائی کے دوران چینی کون سے منصوبے تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ اور پاکستان کی معیشت پر تفصیلات اور اس میں ممکنہ خدشات کی وضاحت یہ صاف دکھاتی ہے کہ چینی کو بخوبی پتہ ہے کہ وہ کس صورتحال میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔