لاہور: پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف عدلیہ پر ہرزہ سرائی کرکے آئینی بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہوں کو قتل کر سمجھا گیا کہ کوئی انصاف نہیں لے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ساڑھے 3 سال سے انصاف مانگ رہے ہیں اور اب مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اگلے لائحہ عمل کے اعلان کا بھی عندیہ دیا۔

یہ پڑھیں: ’باقر نجفی رپورٹ پنجاب حکومت کا بیڑا غرق کرنے کیلئے کافی‘

انہوں نے سابق نواز شریف کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ عدلیہ کے خلاف بغاوت کا ماحول پیدا کرکے عدلیہ کی حرمت کا خون کررہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القاردی نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ‘رانا ثناء اللہ 31 دسمبر تک مستعفی ہوجائیں‘۔

انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں سوال اٹھایا کہ ‘کیا 16 جون کو ہونے والے اجلاس کی صدارت رانا ثناءاللہ نہیں کی تھی اور کیا اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے ماتحتوں چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ اور سیکریٹری ٹو ہوم کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں تھے؟’

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم

ڈاکٹر طاہر القادری نے جسٹس باقر نجفی کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘رپورٹ میں واضح ہے کہ اہداف کو حاصل کرنے لیے لاشیں گرانے کا حکم دیا گیا تھا’۔

انہوں نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ مجھے جواب دیں کہ آپ اس گھناؤنے فیصلے اور اس کی تعمیل کے عمل میں خود کو کس طرح بے علم اور بے خبر کہہ سکتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘نجفی کمیشن رپورٹ کے صفحہ 5، 6 اور 61 کو ملا کر پڑھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اور ایس پی انویسٹیگشن کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ آپریشن کے لیے پولیس کی غازی، حیدر اور ٹیپو کمپنیوں کے علاوہ 13 سے زائد پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں کو بھیجا گیا تھا‘۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ‘کیا کبھی پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کسی رہائشی علاقے کی سڑک کی تجاویزات ہٹانے کےلیے اتنی بڑی ریاستی طاقت استعمال کی گئی؟‘

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ:حکومت کو قصور وارنہیں ٹھہرایاگیا،رانا ثناء اللہ

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

بعد ازاں حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں کمیشن بنایا۔

جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسپیشل برانچ نے اس سانحے کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی اس میں صرف پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر تھا۔

آئی ایس آئی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق واقعے میں ہلاکتوں کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی گئی اور کہا گیا کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے 10 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے تھے جن میں سے 51 افراد کو گولیوں کے گہرے زخم آئے تھے۔

آئی ایس آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ منہاج القرآن کے محافظ اور سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

تبصرے (0) بند ہیں