اسلام آباد: انسانی حقوق اور کاروبار پر نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو ترتیب دینے سے متعلق دو روزہ اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہے لیکن ملک میں 6 کروڑ افرادی قوت (ورک فورفس) کو بد ترین صورتحال کا سامنا ہے۔

اجلاس کے شرکاء نے زور دیا کیا کہ پاکستان کو انسانی حقوق کے تحفظ اور کاروبار میں بہتری کے لیے این اے پی تشکیل دینے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

وکسفیم کے تعاون سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سروسز (پیپس) کے زیراہتمام اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ انسانی حقوق اور کاروباری کے حوالے سے قانونی پیچیدگیوں اور رائج اصولوں پر تبادلہ خیال گیا گیا۔

یہ پڑھیں: 'ایک فیصد پاکستانی مزدور لیبر یونین سے منسلک'

اجلاس میں کہا گیا کہ ‘ملک میں افرادی قوت بنیادی حقوق سے محروم ہے جن میں کم اجرت، ایسوسی ایشن سے محرومی، اجتماعی معاملات میں کمی، کام کی جگہ کا غیر محفوظ ہونا شامل ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے 2014 میں تمام رکن ممالک کو بنیادی حقوق کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تیار کرنے کا کہا تھا۔

اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر

مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ بروقت نہ پہنچ سکے جس کی وجہ سے اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔

بعدازاں انہوں معذرت کرتے ہوئے شرکاء سے اعتراف کیا کہ انہیں موضوع کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا انسانی حقوق کی پالیسی جاری رکھنے کا عزم

انسانی حقوق کے وزیر رسمی گفتگو کرکے قدرے عجلت میں واپس چلے گئے۔

وزیرانسانی حقوق ممتاز احمد نے کہا کہ ‘موضوع اپنی وسعت کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور لوگوں کو انسانی حقوق اور کاروبار کے مابین تعلق کا ادراک نہیں اس لیے ارکان پارلیمنٹ، کاروباری شخصیات اور ورکرز باہم مشاورت سے نیشنل ایکشن پلان کو مزید پر اثر اور کارآمد بنائیں’۔

اجلاس میں چاروں صوبوں کے ترجمان نے اپنے صوبوں کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بات دوہرائی کہ ‘موضوع وزارت کے لیے نیا ہے اور محکمہ انسانی حقوق کے لیے یہ موضوع آج سے پہلے کبھی زیر بحث نہیں آیا’۔

رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے طرز عمل پر تنقید کرتےہوئے کہا کہ ‘یہ بہت افسوس ناک امر ہے کہ انتہائی اہم نوعیت کے موضوع پر بات چیت کے لیے وزیر انسانی حقوق کے پاس وقت نہیں اور اسی وجہ سے پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈز عالمی قوانین برائے انسانی حقوق اور کاروبار سے لاعلم ہیں اور عالمی فورمز پر جگ ہنسائی ہوتی ہے’۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کو لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد پر تشویش

وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل کامران راجہ نے کہا کہ ‘ان کی وزارت بہت محنت کررہی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈز کے ساتھ کام کرنے لیے تیار ہے۔

انسانی حقوق کے رکن اور تجزیہ نگار آئی اے رحمان نے زور دیا کہ انسانی حقوق اور کاروباری کے رہنما اصولوں کو عملی شکل دینے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عالمی صنعتیوں سے دوسرے ممالک کو نقصان پہنچ رہا ہے اس لیے زمین، جنگل، ماحول، کمیونٹیز کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جو صرف بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے سے ہی ممکن ہے’۔

پیپس کے ایگزیٹیو ڈائریکٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ ‘اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش باقی ہے جبکہ 3 کروڑ بچے جبری مشقت کی وجہ سے افرادی قوت کا حصہ بن گئے ہیں اور خواتین مردوں کے مقابلے میں کم اجرت پر ملازمت دینے کا رحجان ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگرکاروباری جگہ پر لیبرقوانین کا احترام کیا جائے تو ممکن ہے کہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں رسائی مل جائے’۔


یہ خبر 20 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں