کراچی: یومِ مئی کے موقع پر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اور ریسرچ (پائلر) نے ’پاکستان میں مزدوروں کے حقوق:2014‘ کے زیرعنوان اپنی ایک رپورٹ کراچی پریس کلب پر میڈیا کے سامنے پیش کی۔

اس رپورٹ میں پاکستان میں خدمات کے شعبے کو درپیش بہت سے چیلنجز اور ناانصافیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رپورٹ کے رونمائی کے موقع پر افرادی قوت کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی زبیدہ مصطفیٰ نے نشاندہی کی کہ ’’ہمارے ہاں چھ کروڑ مزدور ہیں اور پانچ کروڑ پچاس لاکھ ملازمتیں ہیں۔ جب دستیاب مزدوروں کی تعداد دستیاب ملازمتوں سے بڑھ جائے تو آجر کا ہاتھ اوپر آجاتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب آجر کا ہاتھ اوپر ہو، اور صرف ایک فیصد مزدور یونین سے منسلک ہوں، تو اس طرح کی صورتحال میں مزدور کا استحصال ہی ہوتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’لیبر قوانین موجود ہیں، لیکن ان میں سے کس قدر قوانین نافذ ہیں، اور کس قدر قوانین پر حقیقی معنوں میں عمل ہوتاہے؟ زرعی اصلاحات کو ’غیراسلامی‘ قرار دیے جانے کے بعد ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ غریب محنت کش طبقہ جو دیہی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے، اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے کا بڑا ووٹ بینک بھی ہے، لیکن انہیں بھی اس طبقے کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘

زبیدہ مصطفیٰ نے کہا ’’اور جب آپ کے انسانی وسائل اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوں، اس کا خودکار اثر ریاست پر پڑتا ہے۔ ریاست کو اپنے انسانی وسائل کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اسے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں، اسکولوں وغیر کی صورتحال ایک الگ کہانی سناتے ہیں۔ اس سے بدتر صورت کیا ہوگی کہ یہ ادارے غیرملکی عطیہ دہندگان اور اداروں سے امداد لیتے ہیں۔ ویسے یہ ساری امداد کہاں جاتی ہے؟۔‘‘

سینئر صحافی نے ایک اور چیز کی جانب اشارہ کیا، وہ ’گلوبلائزیشن‘ تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’’گلوبلائزیشن اشرافیہ طبقے کو ایک نیٹ ورک فراہم کرتی ہے، جبکہ غریب مزدور طبقہ کچلا جارہا ہے۔‘‘

اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دولت مند افراد کے بچے کس طرح اے اور او لیولز کے امتحانات دیتے ہیں اور غریبوں کے بچے مقامی بورڈ کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں، کس طرح کارپوریٹ سیکٹر یہاں کام کرتا ہے، کس طرح بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں مزدوروں کی جانیں گئیں، جہاں وہ غیرملکی مارکیٹ کے لیے کپڑے تیار کرنے میں مصروف تھے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ’’ہم گلوبلائزیشن کے سامنے سرِ تسلیم خم کررہے ہیں۔‘‘

افرادی قوت کے مسائل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پائلر کے کرامت علی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جاگیرداری اب پاکستان میں قابو سے باہر نہیں رہی، لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح جاگیرداروں کی جانب سے ہاری کی زمین اس سے چھین لی گئی۔

پچاس کی دہائی میں پچیس فیصد مزدور یونینوں سے منسلک تھے، یہ تعداد اب کم ہوکر ایک فیصد رہ گئی ہے، اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کارکنان اپنی اپنی یونین کو رجسٹرڈ کروانے جاتے ہیں تو ان کے کاغذات کو ان کے اداروں کے پاس تصدیق کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، یوں ان کے مالکان کو ان کے ارادوں کی بھنک پڑ جاتی ہے اور انہیں نکال دیا جاتا ہے۔

کرامت علی نے کہا ’’یومِ مئی ایک تحریک تھی، جس کے تحت عوام ایک دن میں آٹھ گھنٹے کام کے لیے لڑے اور اپنی جانیں دیں۔ لیکن اگر آپ کو آٹھ گھنٹوں کا کم سے کم معاوضہ بھی نہیں دیا جائے تو آپ دن کے باقی گھنٹوں میں کیا کریں گے؟ پاکستان میں اکثریت بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائزز جیسے بےقاعدہ شعبوں میں کام کررہی ہے، جسے لیبر یونین کے محکمے کے ساتھ رجسٹرڈ تک نہیں کیا گیا تھا، اور جہاں لوگوں سے چودہ چودہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ لہٰذا مزدوروں کی ملازمتوں کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار گمراہ کن ہیں۔‘‘

حکومت کو بہتری کے اقدامات کے لیے تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’محض اپنی لیبر پالیسی کے ڈھانچے پر کام کرنے کے بجائے، اپنی سماجی پالیسی، اقتصادی پالیسی اور صنعتی پالیسی کا تعین کریں۔ دوسری صورت میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘‘

اس رپورٹ کی ایڈیٹر زینت حسام نے کہا کہ پائلر اس طرح کی تحقیقات میں 33 برسوں سے شریک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’مزدوروں کے حقوق کے موضوع پر یہ ہماری تیسری رپورٹ ہے۔ یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں موجودہ صورتحال ہر بات کی گئی ہے، جبکہ دوسرا حصہ مختلف ماہرین کے تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں