اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار شخص کو 9 سال جیل میں گزارنے کے بعد شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر رہا کردیا۔

خیال رہے کہ پولیس نے 58 سالہ شخص کو 29 ستمبر 2008 کو بہاولنگر کے علاقے صادق گنج کی ایک مسجد میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین کرنے کے الزام میں گرفتار کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295 (بی) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کا قانون:سینیٹ کمیٹی میں بحث کا نیا رخ

بولنے اور سننے کی طاقت سے محروم اختر محمد نے یہ واقعہ مسجد کے پیش امام حافظ محمد منیر کو بتایا تھا جنہوں نے اس کی اطلاع مقامی پنچایت کو دی جہاں اس شخص کو مارنے پیٹنے کے بعد پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بہاول نگر کے ڈسٹرکٹ سیشنز جج نے اس شخص کو 2009 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے 2014 میں اس سزا کو برقرار رکھا تھا بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس کیس کو لیتے ہوئے ملزم کی وکیل کے اخراجات نہ برداشت کرنے کی استطاعت کو دیکھتے ہوئے ریاستی کونسل بھی فراہم کی تھی۔

سماعت کے دوران ڈیفنس کونسل نے نشاندہی کی کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوت سپریم کورٹ کے ایویڈنس ایکٹ کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: مسیحی شخص ’توہین مذہب‘ کے الزام میں گرفتار

انہوں نے کہا کہ اس کیس کے عینی شاہد ایک معذور شخص ہیں اور انہیں ایویڈنس ایکٹ کے تحت گواہ نہیں بنایا جاسکتا۔

کونسل نے مزید کہا کہ اس کیس میں کی گئی تحقیقات کرمنل پروسیجر کوڈ کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل سننے کے بعد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے اس شخص کو باعزت بری کردیا۔


یہ خبر 30 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں