کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو ضلع عمر کوٹ کے علاقے کنری میں ریپ متاثر ہندو لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے بااثر خاندان کے ایک فرد کی جانب سے گزشتہ ماہ ہندو برادری کی ایک لڑکی سے ریپ پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف کارروائی اور پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

عمرکوٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عثمان اعجاز باجوہ نے گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس میرپورخاص نے ان کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی تھی، جس میں کنری کے سب ڈویژنل پولیس آفیسر اور نبی سر کے ایس ایچ او کو شامل کیا گیا تھا تاکہ واقعے کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جاسکے۔

مزید پڑھیں: کراچی: 11 سالہ بچی کا ’ریپ‘ کے بعد قتل

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) نبی سر پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 376 کے تحت درج کی گئی اور مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کسان کی بیٹی متاثرہ لڑکی کا طبی معائنہ کنری تعلقہ ہسپتال میں کیا گیا اور ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کیے گئے تھے جبکہ متاثرہ لڑکی کی میڈیکل رپورٹ میں اس سے ریپ کی تصدیق ہوگئی اور مزید تحقیقات جاری تھی۔

ایس پی نے عدالت کو مزید بتایا کہ متعلقہ ایس ایچ او کو شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ڈی آئی جی میرپورخاص اور ایس پی عمر کوٹ کو ہدایت دی کہ وہ متاثرہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو سیکیورٹی فراہم کریں۔

ایس ایچ او کو شو کاز نوٹس

جوڈیشل مجسٹریٹ نے گزشتہ روز ایس ایچ او رضویہ سوسائٹی اور خیبرپختونخوا پولیس کے ایک افسر کو متعلقہ حکام کی اجازت اور دیگر ضروری دستاویزات کے بغیر ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے پر شو کاز نوٹس جاری کردیا۔

خیبرپختونخوا پولیس کے اے ایس آئی نے جوڈیشل مجسٹریٹ ( سینٹرل) کی عدالت میں شکیل احمد نامی شخص کو پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ مشتبہ شخص 2006 میں ایبٹ آباد میں خاتون کے اغواء کے مقدمے میں مفرور تھا جبکہ اسے رضویہ سوسائٹی کی حدود سے گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے ملزم کے عبوری ریمانڈ کی درخواست کی، تاہم مجسٹریٹ کی جانب سے خیبرپختونخوا ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اجازت نامے کے بارے میں پوچھنے پر پولیس افسران دستاویز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

عدالت نے علاقے کے ایس ایچ او کو بلایا اور پوچھا کہ ان کے تھانے کی حدود میں ایک شخص کو مکمل دستاویزات نہ ہونے پر کیسے گرفتار کیا گیا اور مطلوبہ دستاویزات کو دیکھے بغیر اس شخص کی گرفتاری کو پولیس اسٹیشن کے روزنامچے میں کیسے درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیج اداکارہ سپنا کے ساتھ ’زیادتی‘ اور تشدد

اس موقع پر مجسٹریٹ نے دونوں پولیس افسران پر برہمی کا اظہار کیا اور انہیں خبردار کیا کہ ان دونوں کو جیل بھیج دینا چاہیے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ بغیر دستاویزات کے مشتبہ شخص کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔

بعد ازاں مجسٹریٹ نے ذاتی حیثیت میں ملزم کو چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے ایس ایچ او اور اے ایس آئی کو شو کاز نوٹس جاری کردیا۔


یہ خبر 02 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں