لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نئے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری ڈاکٹرز کے نجی کلینک بند کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجز میں اضافی فیسوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دواران اٹارنی جنرل پاکستان کے ساتھ ساتھ نجی میڈیکل کالجز کے مالکان اور چیف ایگزیکٹو افسران بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

نجی میڈیکل کالجز کے مالکان نے عدالت میں اپنا بیان حلفی ریکارڈ کرایا اس کے علاوہ اکاؤنٹ تفصیلات جمع کرادیں۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کالجز نے طالبِ علموں سے 6 لاکھ 42 ہزار روپے سے زائد فیس لی ہم نے ابھی سب دیکھنا ہے اور اگر ان میں پیسے زیادہ ہوئے تو اسکی خیر نہیں ہوگی اور یہ پیسے واپس بھی کرنے پڑیں گے۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کی دیانت پر شک نہ کیا جائے، چیف جسٹس ثاقب نثار

ان کا کہنا تھا کہ جو سرکاری ڈاکٹرز اپنے پرائیویٹ کلینک چلا رہے ہیں وہ بند کروادیئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا ’غریب کا بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں ہیں، تاہم یہ میرا پیشن ہے اور میں یہ ٹھیک کرکے رہوں گا کیونکہ میرے پاس وسائل کی کمی نہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’مجھے یہ مت کہیں کہ یہ ہوسکتا ہے اور یہ نہیں، میں نے ایسے لوگ اکٹھے کرنے ہیں جو ڈنڈے والے ہوں گے۔‘

چیف جسٹس پاکستان نے میڈیکل کالجز کا وزٹ کرنے کے لیے آئینی کمیٹی تشکیل دے دی جبکہ حکم دیا کہ کوئی میڈیکل کالج اب رجسٹرڈ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صحت کی صورتحال جانچنے کے لیے اندرون سندھ اور بلوچستان بهی جائینگے کیونکہ ہمارا مقصد شعبہ صحت کی بہتری ہے اور اگر کسی خرابی کے پیچهے کرپشن نظر آئی تو اسے نہیں چهوڑا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی میں سہولیات کے لیے اقدامات اٹھا لیے، اب لاہور کی باری ہے'

میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی سائنس کی سب سمجھ آنا شروع ہوگئی اور خرابی پکڑی گئی تو تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں بند کرادی جائیں گی۔

انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اپنی مارکنگ ہوتی ہے، اپنے طلباء کو پاس کرتے ہیں، ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ داخلہ میرٹ پر ہو، ڈونیشن اور پیسے کی بنیاد پر داخلے نہیں ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز کمیشن کے لیے عائشہ حامد ایڈووکیٹ کو معاون مقرر کر دیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدالت کوشش کر رہی ہے کہ پیسے تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور اس سلسلے میں اگر مخیر حضرات سے بھی رابطہ کرنا پڑا تو کریں گے۔

27 دسمبر کو سپریم کورٹ نے مزید نئے میڈیکل کالجز کی منظوری دینے سے روک دیا تھا جبکہ میڈیکل کالجز سے متعلق ہائی کورٹ کے تمام بینچز اور سیشن عدالتوں میں زیرِ سماعت کیسز کی تفصیلات بھی طلب کیں تھیں۔

عدالت نے وائس چانسلر فیصل آباد یونیورسٹی فرید ظفر کو اپنا جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے وائس چانسلر فیصل آباد یونیورسٹی کو توہین عدالت پر معطل کر دیا تھا۔

26 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے نجی میڈیکل کالجز میں زائد فیسوں کے خلاف کیس میں ملک بھر کے غیر منظور شدہ نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پرانی تاریخوں میں داخلے کی کوشش کی تو کالج کے مالکان ذمہ دار ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں