پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور مرکزی سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے ساتھ ریپ اور قتل کی ذمہ داری براہِ راست صوبائی حکومت پر عائد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے فوری استعفے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ پہلا واقعہ نہیں، لہذا حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے ہی ملزمان کو گرفتار کرکے سزائیں دیتی، تاکہ آج کسی میں ایسے جرائم کرنے کی جُرت ہی نہ ہوتی۔

انہوں نے کہا 'آج معاشرہ خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے اور لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، لہذا ایسا کوئی بھی واقعہ جو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلائے وہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت یا تو ترجیحی بنیادوں پر زینب کے قاتل کو گرفتار کرکے عوام کے سامنے پیش کرے اور اسے سزا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تو اسے حکمرانی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، کیونکہ عوام ووٹ اپنے تحفظ کے لیے دیتے ہیں، اور تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے'۔

مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

اس سوال پر کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر واقعے کے بعد عوام فوج اور عدلیہ سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں تو پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ گزشتہ ساڑھے چار سال کی کارکردگی کو دیکھ کر عوام کا حکومت پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، کیونکہ بدقسمتی سے پہلے بھی انصاف کے بے شمار دعوے اور وعدے کیے گئے، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا اور اس کی ایک واضح مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے، جس کے انصاف کے لیے آج ایک مرتبہ پھر جدو جہد کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہی مؤقف رہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی بالادستی ہو، مگر جب عوام کے منتخب کردہ نمائندے بہتر حکمرانی کرنے میں ناکام ہوجائیں تو انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

پنجاب پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب کے بارے میں تصور قائم کیا جاتا ہے کہ یہ ایک پُرامن صوبہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ جرائم کا گڑھ ہے اور اس کی بنیادی وجہ پولیس کا وہ نظام ہے، میں سیاسی مداخلت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جب تک محکمہ پولیس میں سیاسی تقرریاں ہوتی رہیں گی، اُس وقت تک ایسے ملزمان قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے'۔

زینب کا قتل، کب کیا ہوا؟

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'

اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننبھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا گیا تھا۔

دوسری جانب زینب کی قتل کے بعد سے ضلع بھر کی فضا سوگوار رہی اور ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور فیروز پور روڈ بند کردیا گیا تھا۔

اس واقعے میں شدت تب دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بھول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں