قصور: وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ قصور میں قتل ہونے والی بچی زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لیے ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا تاہم امید ہے کہ بہت جلد ملزم کا پتہ چل جائے گا۔

قصور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی میں عسکری اور وفاقی ایجنسیاں شامل ہیں، جو اس کیس میں تحقیقات کر رہی ہیں جبکہ میں خود بھی اس کی نگرانی کر رہا ہوں اور ملزم کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا‘۔

شہباز شریف نے مقتولہ زینب کے علاقے کے لوگوں سے بھی درخواست کی کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کا ساتھ دیں جبکہ معلومات دینے والوں کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل از خود نوٹس: سپریم کورٹ میں تمام تحقیقاتی ٹیمیں طلب

انہوں نے کہا کہ سائنسی طریقے سے اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں اور قاتل کو جلد گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے قوم کے جذبات کو نہ بھڑکائیں، دھرنا دینے والوں کو اگر قوم کی بیٹی کا درد ہے تو وہ مردان بھی جائیں کیونکہ عاصمہ بھی قوم کی بیٹی تھی۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس میں زینب کے ساتھ ریپ کی تصدیق ہوگئی تھی۔

اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ابتدائی طور ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ

بعدِ ازاں اس واقعے کے بعد 10 جنوری کو وطن واپسی پر زینب کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

جس کے بعد پہلے لاہور ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے واقعے کا از خود نوٹس لیا گیا تھا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کرلی تھی۔

11 جنوری کو آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کی جانب سے ابتدائی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ زینب قتل میں 227 افراد سے تفتیش کی گئی جبکہ 64 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔

دریں اثناء گزشتہ روز سپریم کورٹ میں اس کیس کی پہلی سماعت ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے چلنے والے از خود نوٹس کیس کی سماعت کو روک دیا تھا اور تمام تحقیقاتی ٹیموں کو سپریم کورٹ طلب کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں