اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 3 مجرمان کی سزاؤں پر عمل درآمد روکتے ہوئے اٹارنی جنرل سے مجرمان کی جانب سے درخواست میں لگائے جانے والے الزامات پر جواب طلب کرلیا۔

مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد روکے جانے کا حکم جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دیا۔

مجرمان عجب گل، فضل غفار اور خاتون زربا خیلو کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے 13 اپریل کے فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل برانچ کے جج کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

سماعت کے بعد مجرم عجب گل کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ڈان کو بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے بینچ نے ان کے موکل عجب گل، جو فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے تاج گل کے بھائی ہیں، کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا ہے۔

اپر دیر کے رہائشی تاج گل کو تقریباً 5 سال قبل علاقے کے بزرگوں نے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا تھا۔

13 اپریل کو پشاور ہائی کورٹ نے، فوجی عدالتوں سے تاج گل اور فضل غفار سمیت 6 دہشت گردوں کو سنائی جانے والی سزائے موت کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ پشاور ہائی کورٹ نے عجب گل کی سزا برقرار رکھی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کے موکل کو ٹرائل کے دوران مناسب قانونی معاونت فراہم نہیں کی گئی۔

اس کے علاوہ عجب گل کو ایسی کوئی دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ وہ سرکاری یا عوامی املاک یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے میں واقعی ملوث تھا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے 15 مارچ کو جاری ہونے بیان میں عجب گل کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا متحرک رکن بتایا گیا تھا، جسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کے باعث موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

مجرم سے بڑی تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد ہوا تھا، جبکہ اس نے فوجی عدالت کے مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

38 سالہ فضل غفار کی جانب سے ایڈووکیٹ احمد رضا قصوری نے نمائندگی کی۔

فضل غفار کو بھی سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کے جرم میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک 76 مجرمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں، جن میں سے 72 کو سزائے موت جبکہ 4 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

تاہم سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں سے اب تک صرف 8 کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے، جن میں سے بیشتر آرمی پبلک اسکول پشاور میں حملے میں ملوث تھے۔

یہ خبر 11 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں