سپریم کورٹ کے ایک خصوصی بینچ نے فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے معذرت کر لی۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیلوں کی سماعت سے معزرت کرلی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا تینوں ججز نے فوجی عدالتوں کیخلاف مقدمے میں اختلافی نوٹ لکھا تھا، اختلافی نوٹ میں تینوں ججز نے فوجی عدالتوں کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے ہم میں سے کوئی بھی یہ کیس سننا نہیں چاہے گا۔

عدالت کا کہنا تھا وکیل متفرق درخواست دے کر اپیل نئے بینچ میں لگوانے کی استدعا کریں۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملزمان ندیم عباس، جہانگیر حیدر اور ذیشان کی اپیلیں چیف جسٹس کو بھجوا دیں۔

ملزمان کو اگست 2016 میں کوئٹہ کی فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

فوجی عدالتوں کا قیام

5 اگست 2015 سپریم کورٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے کورٹ روم نمبر ایک میں فیصلہ سنایا تھا۔

فیصلے کے مطابق 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں 11 ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ 6 نے مخالفت کی، یوں کثرت رائے پر عدالتوں کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خصوصی عدالتیں قائم کرنے کیلئے 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ۔1952 منظور کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش

بعدازاں، 16 اپریل 2015 کو فوجی عدالتوں کی جانب سے چھ دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو معطل کرتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ بار کونسل کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں 21 ویں اور 18 ویں ترمیم کے خلاف مجموعی طور پر 32 درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں سے 21ویں ترمیم کے خلاف 15 اور 18ویں ترمیم کے خلاف 17 درخواستیں دائر ہوئی تھیں.

فوجی عدالتوں کے قیام پر ججز کا اختلافی نوٹ

21ویں ترمیم کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس اعجاز چوہدری، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسٰی شامل تھے۔

ترمیم سے متعلق جسٹس جواد ایس خواجہ نے 25 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی دیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمان مقتدر اعلی نہیں اور نہ ہی آئینی ترمیم کے حوالے سے اس کے اختیارات لامحدود ہیں، پارلیمان کے اختیارات کی حدیں ناصرف سیاسی نوعیت کی ہیں بلکہ خود آئین سے بھی مترشح ہیں،عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ پارلیمان کی منظور کردہ آئینی ترامیم کو مخصوص حالات میں کالعدم قرار دے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 175 اے 19 ویں آئینی ترمیم کے بعد پارلیمان کے آئینی اختیارات سے متجاوز نہیں۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ 21ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازم ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں