فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی تفصیلات طلب

سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک منظر—۔فائل فوٹو/ رائٹرز
سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک منظر—۔فائل فوٹو/ رائٹرز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو فوجی عدالتوں کی جانب سے 5 مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا گیا یا نہیں۔

منگل کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ نے 18ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے 21 ویں ترمیم کو رجعت پسندانہ قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان بنیادی حقوق کی بالادستی کے لیے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرنے والا ہے۔

انھوں نے موقف اختیار کیا کہ دہشت گرد پکڑے جائیں تو ان کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہونا چاہیے جب کہ عالمی معاہدوں کے تحت عدالتی کارروائی کو خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سانحہ پشاور کو بنیاد بنا کر ملک میں فوجی عدالتوں کا متوازی عدالتی نظام کھڑا کر دیا گیا اور انتظامیہ کی کوتاہی کا الزام عدلیہ پر ڈال دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا 'ہم اپنے قوانین پر بین الاقوامی معاہدوں کے ڈکٹیشن کی اجازت نہیں دے سکتے'۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے سوال کیا کہ کیا 21 ویں ترمیم فوجی عدالتوں کو کامیابی سے تحفظ فراہم کرہی ہے۔

جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری نظام خراب ہے، لیکن نظام درست کرنے کے بجائے آئین کو بالائے طاق رکھنا درست نہیں۔

کیس کی سماعت کل یعنی بدھ تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عابد زبیری اپنے دلائل پیش کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں