اسلام آباد: پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے فوجی عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائے جانے اور اس پر پشاور ہائی کورٹ کے 9 دسمبر 2015 کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چلینج کردیا ہے۔

یہ پٹیشن فوجی عدالت میں مجرم قرار دیئے جانے والے جمیل الرحمٰن کے چچا شیرعالم کی جانب سے دائر کی گئی، جسے 2014 میں سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں اس کی حراست کو تسلیم بھی نہیں کیا گیا۔

شیر عالم کو اپنے بھتیجے کی قید کے حوالے سے اُس وقت معلوم ہوا جب انھوں ںے 22 ستمبر کو خیبرپختونخوا کے ایک روزنامہ 'آج' میں شائع ہونے والی رپورٹ پڑھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالت نے ان کے بھتیجے کو سزا سنادی ہے، جس کی توثیق آرمی چیف نے بھی کردی ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت کا ریکارڈ فراہمی کی درخواست مسترد

سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے سے قبل انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ملزم کو جس جگہ قید میں رکھا گیا ہے، وہاں اس کے خاندان کے افراد سے ملنے کی اجازت دی جائے۔

سزا کے قوانین کے مطابق ملزم کو یہ حق حاصل ہے تاہم عدالت نے سزا کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

خیال رہے کہ عاصمہ جہانگیر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی ایک درخواست پر 7 دسمبر کو عدالت نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے دو قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا، پٹیشن میں عاصمہ جہانگر کا کہنا تھا کہ ملزمان کو منصفانہ مقدمے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا جس کے تعین کے لیے لارجر بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جائے۔

عدالت نے حیدر علی اور قاری ظہیر گل کے خلاف عدالتی کارروائی کا مکمل ریکارڈ طلب کیا تھا لیکن مذکورہ معاملے کو دوبارہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو بھیج دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قبائلی نوجوان کی سزائے موت پشاورہائیکورٹ میں چیلنج

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کی جانے والی نئی اپیل پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہے، جس کے مطابق عدالت نے جمیل الرحمٰن کے معاملے میں سماعت کو رازدارانہ رکھنے کے عمل کو ایک عام نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پوری کارروائی اِن کیمرہ منعقد کی گئی تھی جس کے بعد مقدمے کی سماعت کے ریکارڈ کی عدم دستیابی کی وضاحت ممکن نہیں ہے تاہم اس کے باوجود ہائی کورٹ نے معاملے کو منسوخ کردیا۔

اس کے علاوہ، ملزم کی جانب سے اُس پر لگائے جانے والے الزامات کی قانونی نمائندگی کے حوالے سے انکار ایک فطری بات ہے کیونکہ یہ بھی واضح ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران وہاں موجود نہیں تھا۔

اسی طرح ملزم پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزامات کے حوالے سے ثبوتوں کو ملزم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور کسی عینی شاہد سے جرح کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت سے سزا،سپریم کورٹ میں پہلی اپیل دائر

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم کو ریگولیشن 2011 کی سول کارروائی کے تحت گرفتار کیا گیا اور حراست میں رکھا گیا تھا جبکہ اس پر ٹرائل فوجی عدالت میں چلایا گیا.

اسی طرح، پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سپریم کورٹ کے 8 اگست کے فیصلے اور مشاہدے کی روشنی میں نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں پر عمل درآمد، اُس کی کارروائی کے خلاف ضابطہ دیکھے جانے کے حوالے سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی نظرثانی سے مشروت ہوگا۔

یہ خبر 12 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں