اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے زور دیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار دیگر اداروں میں اصلاحات سے قبل عدلیہ میں موجود چیزوں کو درست کرنے کے لیے اصلاحات کریں۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران بالواسطہ طور پر عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور یہ بھی طرز حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔

مزید پڑھیں: نئے سیاست دان پارلیمنٹ کو حقیر سمجھتے ہیں، خورشید شاہ

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا اصل کام لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے نہ کہ حکمرانی کرنا، انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک میں ججوں کی کمی ہے۔

خورشید شاہ نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر 35 کرنا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے بھی تجویز دی کہ لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد 80 جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں 45 کی جائے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے جہاں ریاست کے ایک ستون پارلیمان کے دفاع کیا تو دوسری جانب عدلیہ پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی متنازع فیصلہ تھا اور اسے اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سول و عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں آسکتی، مشاہد اللہ خان

سینیٹ میں خطاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ عوام نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔

اس موقع پر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کئ چیئرمین اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد کے پارلیمان کے حوالے سے بیان پر سخت تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ یہاں ایک حد مقرر ہونی چاہیے، جسے عبور کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے لیکن دونوں رہنماؤں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔


یہ خبر 23 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں