قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ملک کے نئے سیاست دان سمجھتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں آگئے اب انھیں کوئی نہیں نکال سکتا اس لیے وہ پارلیمنٹ کو حقیر سمجھتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ جو پارلیمنٹ کو حقیر سمجھتے ہیں عوام ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔

سکھر کی تحصیل صالح پٹ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ کیا سیاست ہے کہ پہلے تنقید کرو پھر معافی مانگ لو، گالم گلوچ کی سیاست اور اداروں کا ٹکراؤ ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس سیاست دان کو اپنے کارکنوں کا احساس نہیں اس کو ملک وقوم کا کیا احساس ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ملک میں سیاست ہو کیونکہ سیاست ہی اس ملک کے مسئلوں کا حل ہے۔

اس موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میاں صاحب کو متعدد بار احساس دلانے کی کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں آئیں کیونکہ اسی پارلیمنٹ نے ان کو طاقتور بنایا ہے اور اسی میں آکر مسائل حل کریں۔

قائد حزب اختلاف نے سابق وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے وقت میں کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچنے والے اور ان سے خاموشی سے گھر جانے کا مطالبہ کرنے والے میاں صاحب اپنی باری میں کیوں خاموشی سے گھر نہیں چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ لیڈر بھٹو جیسا ہوتا ہے جو اپنی کہی ہوئی بات پر ڈٹ جائے، سولی چڑھ جائے مگر معافی نہ مانگے، یہ کیسے سیاست دان ہیں جو اپنی کہی ہوئی بات پر فوراً معافی مانگ لیتے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میری سیاست کھلی کتاب کی طرح ہے اور ہمیشہ عوام کے درمیان رہ کر سیاست کی ہے اگلے سال میری سیاست اور میری پارٹی کو پچاس سال مکمل ہوں گے۔

پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ ملک جمہوریت کے ذریعے ہی ترقی کرسکتا ہے اس لیے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہیے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو خبردار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی سی بی ملک میں کرکٹ کی بحالی کے بعد کراچی کو نظر انداز نہ کرے ورنہ بطور اپوزیشن لیڈر سخت مزاحمت کروں گا۔

یاد رہے کہ 2009 میں لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تھا تو پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر سری لنکا کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی سیریز کےآخری میچ کے لیے لاہور آئی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس کے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھل جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں