کابل: افغان طالبان نے افغانستان میں جاری جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کا عندیہ دیا تاہم ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ‘رضا مندی’ کو ان کی کمزوری اور جنگ سے اکتاہٹ نہ سمجھا جائے جبکہ امریکا کتنا ہی بڑا جنگی آپریشن شروع کرے لیکن ان کے ہتھیار بھی برابر جواب دیں گے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں فضائی کارروائیوں میں اضافے پر مشتمل نئی جنگی حکمت عملی کے باعث طالبان مجبوراً مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئے ہیں۔

یہ پڑھیں: طالبان کے حملے میں 100 سے زائد افغان فوجی ہلاک و زخمی

ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ طالبان، افغانستان کے بیشتر حصے پر اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور حالیہ دنوں میں امریکی جنگی جہازوں کی کارروائی کے جواب میں افغانستان کے دارالحکومت میں دو بڑے حملے کیے گئے جس میں 150 افراد ہلاک ہوئے۔

مذکورہ دونوں حملوں کے بعد امریکا اور افغانی حکام پر سخت دباؤ بڑھا کہ وہ 17 برس سے جاری جنگ کا ماحول ختم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا دور شروع کریں۔

اسی دوران امریکن گورنمنٹ اکاؤنٹبلٹی آفس (جی اے او) کی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ امریکا نے افغان فورسز کو مسلح کرنے کے لیے گذشتہ 16 سال کے دوران 76 ارب ڈالر خرچ کیے اور اسی رپورٹ میں میں کہا گیا کہ اس قدر رقم خرچ کرنے کے باوجود امریکا، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

امن مذاکرات کے حوالے سے طالبان حکام نے امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغانستان کا مسئلہ امن مذاکرات کے لیے ذریعے حل کرنا ہماری ترجیح میں شامل ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: افغان فورسز کو مسلح کرنے کیلئے امریکا نے 76 ارب ڈالر خرچ کیے

اپنے بیان میں انہوں نے واضح کیا کہ ‘افغانستان میں موجود غیر ملکی فورسز کی بے دخلی اور امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کو شکست دینے تک لڑائی جاری ہے، امریکا اپنا ’تسلط‘ ختم کرے اور ‘عوام کی امنگوں کے مطابق’ حکومت کی تشکیل دینے کے لیے طالبان کے حقوق تسلیم کیے جائیں۔

دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان نے طالبان کے بیان پر رائے دینے سے انکار کردیا جبکہ افغانستان میں نیٹو ملٹری مشین کے ترجمان سے کوششوں کے باوجود رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔

طالبان نے اعلامیے میں کہا کہ ابھی امریکی عوام کو یہ احساس کرنے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ طالبان ‘صحت مندانہ پالیسی اور مذاکرات’ کے ذریعے ہر مسئلہ حل کرسکتے ہیں اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے’۔

انہوں نے واضح کیا کہ مسئلے کے پرامن حل کے لیے ان کی رضامندی اور مثبت کردار کو ہرگز کمزوری کی علامت نہ سمجھا جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے 6 ماہ میں 5 ہزار راکٹ فائر کیے: افغانی حکام کا الزام

طالبان کا موقف تھا کہ کسی ملک کو نقصان پہنچانا ان کے مفادات کا حصہ نہیں لیکن وہ افغان سرزمین پر بیرونی طاقت کا وجود برداشت نہیں کرسکتے۔

افغانستان میں طالبان حملوں کی نئی لہر

کابل میں اچانک حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ دنوں افغان دارالحکومت کے ریڈ زون میں ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم 95 افراد جاں بحق اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس دھماکا،95 افراد جاں بحق

یاد رہے کہ رواں ماہ 21 جنوری کو افغان داراحکومت کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں کابل میں اسی فوجی اکیڈمی پر خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


یہ خبر 15 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں