کراچی پورٹ پر کھڑی 10 ہزار سے زائد استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کو 6 اکتوبر 2017 کی پالیسی کے تحت مارکیٹ میں لانے کے حکومتی فیصلے سے آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ کمپنیوں اور شعبوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) کے سابق چیئرمین عامر اللہ والا اور منیر کے بانا نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کو پرانی پالیسی کے تحت مارکیٹ میں لانے کے لیے ایمپورٹرز کو خوش کیا گیا اور 4 ماہ کے اندر ہی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کرڈالا۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے رہائشی اسکیم کی منتقلی، سامان اور تحفے کے تحت بھیجی گئی گاڑیوں کی کلیئرنس کی اجازت دی گئی تھی۔

جس کے بعد درآمد کنندگان اور کار ڈیلرز کے تحت تحفے اور سامان اسکیم کے غلط استعمال کے بعد حکومت نے استعمال شدہ کاروں کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔

یہ پڑھیں: پاکستان میں استعمال شدہ کاروں کی درآمدات میں 70 فیصد اضافہ

پاپام کے سابق چیئرمین نے خبردار کیا کہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں سے متعلق حالیہ پالیسی سے ملکی صنعت کو دھچکا لگے گا اور نئے آنے والوں کے لیے منفی رحجانات کا باعث بنے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک درآمدی گاڑی سے مقامی صنعت کو تقریباً 3 لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ گزشتہ برس 80 ہزار گاڑیوں کو درآمد کرنے سے 24 ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔

پاپام کے سابق عہدیداروں نے زور دیا کہ حکومت قابل فہم اور شفاف پالیسی کو یقینی بنائے تاکہ مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ زیادہ سرمایہ کاری کریں جس سے ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور نئے کاروباری حضرات بھی متوجہ ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹویوٹا نے کاروں کی قمتیوں میں 60 ہزار روپے تک اضافہ کردیا

ان کا کہنا تھا کہ آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ شعبے سے تقریباً 20 لاکھ 25 ہزار افراد بلواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ ہیں تاہم حکومت کی جانب سے پروڈکشن اور یوٹیلائزیشن کی سطح پر غیر متوقع پالیسی سے خدشات غیر معمولی ہیں۔

دوسری جانب آل پاکستان موٹر ڈیلرایسوسی ایشن (اے پی ایم ڈی اے) کے چیئرمین نے ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ حکومت کے حالیہ فیصلے سے قومی خزانے کو 12 ارب کا فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی پورٹ پر 80 فیصد 660 سے لیکر 1000 سی سی کی مختلف گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔

لوکل اسمبلر نے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دی تھی اور زیادہ پریمیم کے ساتھ کارکی فراہمی میں 6 ماہ کا وقت لگایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی فیصلے سے مقامی سطح پر تیار ہونے والی اور استعمال شدہ گاڑیوں کے مابین مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں چینی گاڑی فروخت کے لیے پیش

دوسری جانب اے پی ایم ڈی اے کے چیئرمین نے کہا کہ مقامی صنعت استعمال شدہ درآمدی کاروں کے خلاف ہے کیونکہ پاکستان میں 660 سی سی کاروں کی تیاری نہیں ہورہی تاہم حکومت کو پانچ سال پرانی کاروں کی اجازت دے کر عام انتخابات میں عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔

مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران 20.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جولائی سے دسمبر کے درمیان ایک لاکھ 3 ہزار 432 یونٹس فروخت کیے گئے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے مطابق جولائی سے دسمبر کے درمیان درآمد شدہ کاروں کی کل تعداد میں 64 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ان کی مالیت 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھی۔

اس حوالے سے پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایسسزیز مینوفیکچرز کے سابق چیئرمین عامر اللہ والا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس مقامی وینڈنگ صنعت کی آمدنی میں اندازاً 23 ارب روپے کی کمی آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات موجودہ اسمبلرز، نئے آنے والوں اور پرزے بنانے والوں کی جانب کی جانی والی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو استعمال گاڑیوں کی درآمدات سے متعلق ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے طریقہ کار میں ترمیم کرنی چاہیے۔


یہ خبر 22 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Feb 22, 2018 02:08pm
Pak auto industry should be sustainable, it should not need import embargos by the Govt to cover its non-productive and noncompetitive practices. There's little reason to manufacture local inefficient cars if (petrol import bill for) lifecycle fuel consumption can be cut by half by importing more efficient cars with modern engines from overseas. A saving of PKR 80k or more per year can then end up to average buyer's pocket who drives 20,000 km/year.