لاہور ہائی کورٹ نے زینب قتل کیس میں سزائے موت پانے والے مجرم عمران علی کی سزا کے خلاف اپیل پر عدالتی ریکارڈ اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے رپورٹ طلب کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کی جانب سے سزائے موت کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران زینب کے والد حاجی امین اپنے وکیل اشتیاق چوہدری کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

زینب کے والد نے پولیس کی تفتیش پر تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کی بچی کے قاتل کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔

عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے مجرم عمران کے حوالے سے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے مجرم کی اپیل پر آئندہ سماعت 12 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 20 فروری کو مجرم عمران کی جانب سے کوٹ لکھپت جیل میں قائم انسدادِ دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

مجرم عمران نے تین صفحات پر مشتمل اپیل میں موقف اختیار کیا کہ اس نے ٹرائل کے دوران عدالت کا قیمتی وقت بچانے کے لیے عدالت کے سامنے اقرارِ جرم کیا تھا۔

اپیل میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اقرار جرم کرنے والے مجرموں کے ساتھ عدالتیں نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔

مجرم نے اپیل میں کہا ہے کہ اقرار جرم کر لینے کے باوجود عدالت نے اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار نہیں کیا اور اسے سزائے موت اور دیگر سزائیں دی گئی۔

اپیل میں مجرم عمران کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ جلدی میں کیا گیا جبکہ ٹرائل کورٹ نے اس دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کئے۔

مجرم عمران نے اپیل میں مزید استدعا کی تھی کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

زینب قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ قصور میں 4 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 6 سالہ زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچراکنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔

پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی تھی اور ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی تھی اور ملزم کی گرفتاری اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم عمران کا زینب قتل کیس میں 16 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

انھوں نے کہا تھا کہ ملزم کے خلاف دیگر 8 مقدمات میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی مکمل ہو چکا ہے اور قصور میں پہلے زیادتی اور قتل کے آٹھ مقدمات میں بھی ملزم ملوث پایا گیا ہے جبکہ ملزم عمران نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے مقدمات کی تفتیش مکمل کرلی، اس کے ساتھ ہی ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم عمران علی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی۔

جس پر عدالت نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کوٹ لکھپت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 12 فروری کو ملزم عمران پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

17 فروری کو اے ٹی سی نے زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانے بھی عائد کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں