لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب قتل کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ملزم عمران کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم عمران کا زینب قتل کیس میں 16 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کے خلاف دیگر 8 مقدمات میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی مکمل ہو چکا ہے اور قصور میں پہلے زیادتی اور قتل کے آٹھ مقدمات میں بھی ملزم ملوث پایا گیا ہے جبکہ ملزم عمران نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل: پولیس نے ملزم کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے مقدمات کی تفتیش مکمل کر لی، اس کے ساتھ ہی ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم عمران علی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی۔

جس پر عدالت نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔

علاوہ ازیں پراسیکیوشن نے زینب قتل کیس کا مکمل چالان انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جمع کرا دیا، یہ چالان 175صفحات پر مشتمل ہے۔

چالان میں پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ ملزم عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا جبکہ ملزم عمران کا ڈی این اے 8 کیسز میں میچ کرگیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ زینب قتل کیس کی سماعت 7 دن میں مکمل کریں گے اور زینب قتل کیس کا فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہو گا۔

اس حوالے سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے تین رکنی ٹیم تشکیل دے دیا، جن میں پراسیکیوٹر عبدالروف وٹو، وقار بھٹی اور حافظ اصغر شامل ہیں۔

پراسکیوشن ٹیم روانہ کی بنیاد پر مقدمے کی کارروائی سے متعلق تمام شہادتیں پیش کرے گی۔

گزشتہ روز پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

8 بچیوں کا قتل کیس

بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل سمیت 8 بچیوں کے قاتل کے کیس کی سماعت بھی ہوئی۔

عدالت نے ملزم کے خلاف چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ملزم کا ٹرائل جیل میں ہوگا۔

خیال رہے کہ 6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔

اس موقع پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کا ڈی این اے 7 دوسرے کیسز سے بھی میچ ہو گیا ہے ملزم عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کو اغوا کر کے قتل کیا۔

عمران نے کہیں بھی اپنا جرم نہیں مانا، وکیل

زینب قتل کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ملزم عمران کے وکیل نے بتایا کہ قانون کی نظر میں ڈی این اے کی کوئی حیثیت نہیں ہے جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران اس قتل کس مجرم نہیں ہے اور عمران کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔

وکیل ملزم عمران نے کہا کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا آپ عمران کو مجرم نہیں کہ سکتے، اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرلیا کہ ملزم عمران نے کہیں بھی اہنا جرم نہیں مانا اور ملزم عمران نہیں ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اگر شہباز شریف کے کہنے پر کسی کو سزا دینی ہے تو پورے لاہور کو سزا ملنی چاہیے اور یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ یہ بندہ کورٹ سے بری ہو گا۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'

23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔

گزشتہ روز پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں