لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کے خلاف 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ جرمانے کا فیصلہ سنا دیا۔

مجرم عمران علی کو عدالت نے بچی کے اغوا، ریپ، قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت سزا سنائی۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بچی کے ساتھ بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، عدالت نے تعزیرات پاکستان کے تحت دو دفعہ سزائے موت کے ساتھ ہر سزا پر دس لاکھ، دس لاکھ روپے جرمانہ اس کے علاوہ بچی کی لاش کو گندگی کے ڈھیرمیں چھپانے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔

جج کی جانب سے دس لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا جو مجرم متاثرہ خاندان کو ادا کرے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنٹفیک بنیادوں پر فرانزک شواہد کو شامل تفتیش کرتے ہوئے مجرم کو سزا سنائی گئی ہے۔

’مجرم نے پہلے ہی جرائم قبول کر لیے تھے‘

کوٹ لکھپت جیل میں انسداد دہشت کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ 'ملزم نے کئی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا، تاہم اللہ کے فضل سے پروسیکیوشن ٹیم کی محنت کی بدولت معصوم بچیوں کا ریپ کرنے اور انہیں قتل کرنے والے مجرم کو پاکستان کے قانون نے نشانِ عبرت بنادیا'۔

انہوں نے کہا کہ مجرم نے پہلے ہی اپنے اوپر لگائے الزامات کو قبول کر لیے تھے لیکن پھر بھی اسے اپنے دفاع کا بھر پور موقع دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم کے پاس ان کی سزا کے خلاف فیصلے کا اختیار ہے اور وہ 15 روز کے اندر اعلیٰ عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے جس کے لیے امکان ہے کہ مجرم جیل حکام سے رجوع کرے گا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کے اہلِ خانہ نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے مجرم کے ٹرائل کے دوران ساتھ دینے پر میڈیا کا شکریہ بھی ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ مجرم کو ملنے والی سزا سے مطمئن اور انصاف کے حصول میں ذرائع ابلاغ کے مثبت کردار پر بہت شکر گزار ہیں، تاہم ‘مجرم عمران کو سرِعام پھانسی کا مطالبہ تاحال اپنی جگہ قائم ہے’۔

واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے حتمی بحث مکمل ہونے کے بعد زینب قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور اس فیصلے کو سنانے کے لیے 17 فروری تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا کہ اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'

23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔

8 فروری پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

9 فروری کو اے ٹی سی نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔

یاد رہے کہ 14 فروری کو ملزم محمد عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کیس سے دستبردار ہوگئے تھے۔

مہر شکیل ملتانی کے دستبردار ہونے کے بعد سرکاری وکیل محمد سلطان کو عمران کا وکیل مقرر کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Zarar Feb 17, 2018 05:04pm
The sudden and speedy trial looks staged.The switching off the mics by CM,three time release of the suspect ,dead body found after four days unharmed. Forty to fifty people including relatives in search of the girl in same area did not find any thing.A police inspector send a police man telling the dead body location .Zainab's uncle claims that have caught the culprit,where government officials clam the credit to catch him from an other city.the Where are other partners of the suspect and baba Ranjha?Every thing is in media. then what will happen if the incident repeats in same area or other area of Punjab??? Who will be blamed for putting every thing out of sight ???