پاکستان میں اسمارٹ فونز استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے،2017 میں نیوز و گلوبل موبائل مارکیٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی عالمی رینکنگ میں 49 ویں نمبر ہر ہے جہاں سب سے زیادہ اسمارٹ فونز استعمال کیے جاتے ہیں، اور صرف گزشتہ چند ماہ میں 39 کروڑ سے زائد کی خطیر رقم صرف اسمارٹ فونز درآمد کرنے پر خرچ کی گئی ہے۔

ایک غیر مستحکم معیشت اور اربوں ڈالرز قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کے لیے یہ یقینا ایک چونکا دینے والا تناسب ہی نہیں، لمحہ فکریہ بھی ہے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اسمارٹ فونز کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال کی بڑے وجہ کثرت سے سوشل میڈیا کا استعمال ہے، اور نوجوان کافی حد تک فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ جیسی ایپلی کیشنز کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے نومبر 2016 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فیس بک اکاؤنٹس کی تعداد 3 کروڑ تھی جو کہ فروری 2017 تک بڑھ کر 4 کروڑ 40 لاکھ سے زائد ہوچکی تھی، جبکہ دوسری جانب ٹوئٹر کے صارفین کی تعداد 30 لاکھ سے زائد اور اتنے ہی افراد کی تعداد انسٹا گرام بھی استعمال کرتی ہے، پاکستان میں باقی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نسبت فیس بک صارفین کی تعداد زیادہ ہے۔

فروری 2004 میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم مارک زکر برگ نے اپنے چند ڈورم میٹس کے ساتھ مل کر جب فیس بک نامی سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی بنیاد رکھی تھی تو ان کا اولین مقصد دنیا بھر سے مختلف کمیونیٹیز، مذاہب اور علیحدہ سوچ و فکر رکھنے والے افراد کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، جہاں نہ صرف سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو مثبت اور صحت مند ماحول میں زیر بحث لایا جائے بلکہ مشترکہ طور پر دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے افراد کو لاحق مسائل کا دیرپا حل بھی تلاش کیا جائے، لگ بھگ 15 برس میں فیس بک کو تعریف و تنقید دونوں کا ہی سامنا رہا ہے، مگر ہر موجد کی طرح مارک زوکر برگ نے اپنی ایجاد کے مثبت پہلو اجاگر کرنے اور اس کے منفی استعمال کی ہمیشہ شدید مذمت کی ہے۔

تیزی سے بڑھتے ہوئے صارفین، متعدد نئے فیچرز اور دیگر کئی سماجی و معاشرتی مسائل کا باعث بننے کی وجہ سے گزشتہ برسوں میں فیس بک کو شدید تنقید کا سامنا رہا، جس میں روس سے سیاسی اشتہارات خریدنے اور غلط طریقے سے فیس بک صارفین کا ڈیٹا حاصل کرکے وسیع تر سیاسی مقاصد کے لیے اس کا ستعمال کا اسکینڈل پہلے ہی اس پلیٹ فارم کی شفافیت کو داغدار کرچکا ہے، مگر حال ہی میں 'کیمبرج انالائیٹیکا اسکینڈل' نے پچھلے سارے بحرانوں کو مات دیتے ہوئے فیس بک کی ساکھ کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ صرف ایک ہفتے میں کمپنی کو تقریبا 75 بلین ڈالرز (پاکستانی 75 کھرب روپے سے زائد) کا مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا اور بحران کی ابتداء سے اب تک اسے 13.9 فیصد کی کساد بازاری کا بھی سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صارفین کا ڈیٹا غلط استعمال ہونے پر فیس بک کے خلاف تحقیقات

فیس بک کی ساکھ کو ہونے والے نقصان اور عالمی ردِ عمل کی تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ 'کیمبرج اناکائیٹیکا اسکینڈل دراصل ہے کیا؟

اس بحران کی ابتداء گزشتہ ماہ اس وقت ہوئی جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ فیس بک صارفین کی پروفائلز سے ان کا ذاتی ڈیٹا بنا اجازت غیر قانونی طور پر لیکر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں استعمال کیا گیا، اس سے پہلے 2015 میں بھی اس طرح کا اسکینڈل سامنے آیا تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر کوگن نے فیس بک پر کیمبرج انالائیٹیکا کی ایک خاص ایپلی کیشن جس کا نام 'دس از یور ڈیجیٹل لائف' تھا اور اسے بنیادی طور پر نفیسات میں معاونت کرنے والی ایپلیکیشن کے طور پر بنایا گیا تھا، جس کے ذریعے شخصیات کی نفسیات یا رویوں کے متعلق پیش گوئی کی جاتی تھی۔

آج فیس بک پر ایسی ایپلیشنز کی بھرمار ہے جو فیس بک لاگ ان کے ذریعے صارفین کی ذاتی پروفائل، تصاویر، اسٹیٹس اور دیگر ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کر کے صارفین کی شخصیت بوجھنے کا دعویٰ کرتی ہیں، خاص ایلگورتھم پر بنائی گئی ایسی زیادہ تر ایپلیکیشنز جعلی ہوتی ہیں اور ان کا اصل مقصد صارفین کی ذاتی معلومات چوری کرکے انہیں سروے اور شماریات کی لیے فروخت کرنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کوگن کی ایپلیکیشن سے لاگ ان کرنے والے صارفین کی تعداد 5 کروڑ تھی،جبکہ 3 کروڑ سے زائد افراد کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے ان کی سائیکو گرافک پروفائلز بھی بنائی گئیں، فیس بک کے قوانین کے مطابق وہ اپنے صارفین اور ان کی ذاتی معلومات کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرتی ہے، لہذا 2015 میں اس اسکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی اس ایپلیکیشن کو فوراً ڈیلیٹ کردیا گیا تھا اور اس کے بعد اس طرح کی ایپلیکیشنز پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

مگر فی الوقت کمپنی کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے، رپورٹس کے مطابق پولیٹیکل ڈیٹا کمپنی کیمبرج انالائیٹیکا نے مبینہ طور پر 5 کروڑ فیس بک اکاؤنٹس سے غیر قانونی طور پر ڈیٹا جمع کر کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، واضح رہے کہ یہ کمپنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم میں معاون تھی۔

اس کمپنی نے سروے سے حاصل کردہ ڈیٹا استعمال کیا جو لا محالہ انتخابی نتائج پر بھی اثر انداز ہوا ہوگا، جبکہ دوسری جانب کیمبرج انالائیٹیکا کا دعو یٰ ہے کہ اس نے فیس بک لائکس اور ایپلی کیشن سے حاصل کردہ ڈیٹا کو ضائع کردیا تھا اور اس کو غیر قانونی مقاصد کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا گیا اور وہ اب تک برطانیہ کے گلوبل سائنس ریسرچ قوانین کی مکمل طور پر پاسداری کرتی آئی ہے، لیکن اسی کمپنی کے ملازم کرسٹوفر لی نے نیو یارک ٹائمز، گارجین اور برطانیہ کے اخبار ‘دی آبزرور‘ کو ایسی دستاویز فراہم کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی نے صارفین کی اجازت کے بغیر سروے سے حاصل ڈیٹا انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا، جن میں امریکی شہریوں کے رویوں اور رجحانات سے متعلق معلومات شامل تھیں۔

مزید پڑھیں: صارفین کا ڈیٹا غلط استعمال ہونے پر فیس بک کے بانی معافی مانگنے پر مجبور

اگرچہ اس اسکینڈل پر باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور میسا چوسٹس کے اٹارنی جنرل نے دونوں فریقین سے جوابات طلب کرلیے ہیں، اور ایک ہفتے کی خاموشی کے بعد فیس بک کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی کمپنی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک کی جانب سے پالیسی یا قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی مگر صارفین کا ڈیٹا محفوظ نہ رکھنے میں یقینا ہم سے کوتاہی ہوئی ہے اور ایسا یقینا ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہ کرنے کے باعث ہوا، مگر ہم اس کے لیے تیزی سے نئے اپ ڈیٹ اور اصطلاحات متعارف کروانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں، تاکہ فیس بک کی ساکھ کو بحال کیا جاسکے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اب تک اس اسکینڈل کی زد میں صرف امریکی فیس بک صارفین ہی آئے ہیں، مگر دنیا بھر سے معروف کمپنیوں سمیت اربوں افراد نے اس پر شدید ردعمل دیا، یہاں تک کے ایلون مسک نے اپنی کمنیوں اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے آفیشل پیجز فیس بک سے حذف کرتے ہوئے اپنی کمپنیوں کی دیگر معلومات بھی فیس بک سے ہٹا دینے کا اعلان کیا، اس کے علاوہ امریکا کی ہاؤس انرجی اینڈ کامرس کمیٹی نے بھی مارک زکر برگ کو باقاعدہ وضاحت کے لیے طلب کر لیا۔

اگرچہ دونوں فریقین کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ انھوں نے صارفین کی معلومات کو انتخابی مہم کے لیے استعمال نہیں کیا مگر کیمبرج انالائیٹیکا سے کہیں زیادہ نقصان کا سامنا فیس بک کو ہوا اور اب اس کی پہلے والی ساکھ کی بحالی ایک مشکل امر ہے۔

ان تفصیلات کے بعد اب اپنے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں، پاکستان سمیت ایشیائی ممالک کی اکثریتی آبادی سرچنگ کے لیے روزانہ گوگل کا استعمال کرتی ہے اور واٹس ایپ اور فیس بک پر دھڑا دھڑ ذاتی اسٹیٹس شیئر کیے جاتے ہیں، مگر دن رات انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مصروف رہنے والوں کی اکثریت ان باتوں سے لاعلم ہے کہ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے ہماری زندگیوں کو کس طرح ایک خطرناک جال میں جکڑا جا رہا ہے، سب سےزیادہ خطرے میں "وائس سرچنگ" ( آواز کے ذریعے سرچ) کی سہولت استعمال کرنے والے لوگ ہیں، کیونکہ اس طرح ان کا متعلقہ ڈیٹا ٹیکسٹ کے بجائے آواز کی صورت میں گوگل کے پاس ذخیرہ ہو رہا ہے۔

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ گوگل آپ کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے تو "مائی ایکٹویٹی گوگل" میں جاکر اپنی پروفائل دیکھیے جو آپکی سرچ ہسٹری کی بنیاد پراوٹومیٹڈ ہوتی ہے اور اس کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ گوگل اسکو خفیہ رکھنے کا ذمہ دار یا مجاز ہر گز نہیں ہے۔

سرچ ہسٹری کے علاوہ گوگل کے پاس آپ کا لوکیشن میپ بھی ہوتا ہے، پاکستان میں موبائل سے "جی پلس یا گوگل اکاؤنٹ سائن ان‘‘ کرنے والے بہت سے افراد اس سے واقف نہیں ہیں اور اپنی لوکیشن آن رکھتے ہیں، اگرچہ یہ صارف کے لیے ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے نہ صرف کسی بھی حادثے یا ناگہانی آفت کی صورت میں متعلقہ شخص کی آخری موجودگی ٹریک کی جا سکتی ہے، بلکہ کسی انجان جگہ پر راستہ تلاش کرنا بھی آسان ہے، مگر فائدے سے زیادہ اس کے نقصانات سامنے آئے ہیں اور سی آئی اے سمیت دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو اس طرح ٹریپ کرکے غائب کر چکی ہیں، لہذا موجودہ حالات میں ہر صارف کے لیے بہت ضروری ہے کہ نہ صرف وہ اپنی سرچ ہسٹری ساتھ ساتھ مٹاتا رہے بلکہ بلا ضرورت لوکیشن آن کرنے سے بھی پر ہیز کرے۔

یہ بھی پڑھیں: وہ سب کچھ جو گوگل آپ کے بارے میں جانتا ہے

صارف کی ذاتی معلومات کو اسکی لائف چپ پر ذخیرہ کرنے کے منصوبے میں سب سے زیادہ معاونت " فیس بک اور واٹس ایپ" جیسے زیادہ استعمال کیے جانے والے سوشل میڈیا فورمز بھی کر رہے ہیں، ان کا ہر اپ ڈیٹ، کوئی بھی نیا فیچر جو بظاہر صارف کی تفریح یا سہولت کے رنگ برنگے سلوگنز میں لپٹا ہوتا ہے اندرونِ خانہ اسے مزید جکڑنے اور گھیرنے کا سامان لیے ہوتا ہے، اس کا مشاہدہ آپ فیس بک پر اپنی نیوز فیڈ میں کر سکتے ہیں، اگر آپ سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو فیس بک آپ کو نیوز فیڈ میں زیادہ سے زیادہ سائنسی معلومات والے پیجز یا اسپونسرڈ پوسٹ دکھائے گا، بظاہر یہ صارف کے لیے سرچنگ کے جھنجھٹ سے نجات اور وقت کی بچت کا ایک طریقہ ہے مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ ان فیچرز سے صارف کی سوچ، پسند نہ پسند اور طبعی رجحانات ہی نہیں اسٹیٹس کے ذریعے ذاتی زندگی کی معلومات بھی حاصل کی جا رہی ہیں، اور یہی تنازع اس وقت فیس بک کی برسوں سے قائم عالمی ساکھ کو لے ڈوبا۔

یاد رکھیے، سوشل میڈیا پر ہر وقت ایکٹو رہنے والے افراد کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے تمام رازوں کی کنجی اب "سندر راجن پچائی "اور" مارک زکر برگ " کے پاس ہے، لہذا سمجھ داری کا تقاضہ یہی ہے کہ اس نشے سے جتنی جلدی ہو سکے جان چھڑا کر ڈیجیٹل لائف کو خیر باد کہہ کر اپنی حقیقی زندگی کو محفوظ، سہل اور پر سکون بنا لیا جائے۔


صادقہ خان نےیونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ اے آر وائی اور ڈان نیوز پر سائنس اور سپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmad Mar 28, 2018 01:32pm
Well written Sadiqa Khan. It's true that we almost forgot what real friends mean, how to spend quality with family than FB. Even parents provide Tablets and cell phones to their kids to keep them busy, therefore they are getting physically inactive.