لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا نیا بینچ بھی تحلیل ہو گیا۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد یاور علی نے عدلیہ مخالف تقاریر کیس میں پرانا بینچ تحلیل ہوجانے کے باعث نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا جبکہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس شاہد مبین اور جسٹس عطر محمود شامل تھے۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ دوبارہ تشکیل

یاد رہے کہ پرانا بینچ جسٹس شاہد بلال حسن کی ملتان بینچ میں منتقلی کے بعد تحلیل کیا گیا تھا اور ان کی جگہ جسٹس شاہد مبین کو نئے بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

تاہم آج ہونے والی سماعت میں نئے بینچ میں شامل کیے گئے جسٹس شاہد مبین کی جانب سے ذاتی وجوہات کی بنا پر اس کیس کی سماعت سے معذرت کی گئی، جس کے بعد ایک اور بینچ بنانے کے لیے فائل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کردی۔

عدالت میں ہونے والی مختصر سماعت میں درخواست گزار آمنہ ملک اور ایڈووکیٹ اظہر صدیقی کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر کی نشریات پر پابندی عائد کرنے کا حکم دے۔

دوران سماعت ماہر قانون اے کے ڈوگر نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ میرے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ ہے، جس پر جسٹس مظاہر علی نتقوی نے ریمارکس دیے کہ بینچ دوبارہ بننے دیں، پھر اس معاملے کو دیکھیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف کیس کی سماعت 5 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف درخواستیں آمنہ ملک، منیر احمد اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: وزیر اعظم کو عدلیہ مخالف تقریر پر نوٹس جاری

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ پیمرا نے مذکورہ تقاریر کے نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی اور اس کی خاموشی کے باعث نفرت انگیز تقاریر اور بیانات نشر ہوئے جبکہ ادارہ قانون اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہا۔

پٹیشنز میں کہا گیا تھا کہ پیمرا ایک ریگولیٹر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور وہ حکومت کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا۔

درخواست گزاروں نے زور دیا تھا کہ پیمرا حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ملازم نہیں ہیں اور انہیں ہر صورت میں پاکستانی شہریوں اور ملک کے اداروں کا تحفظ کرنا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پیمرا کو ہدایت کی جائے کہ وہ میڈیا کو ریاست کے اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کا غیر قانونی مواد اور تنقید کو نشر نہ کرنے کا پابند کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں