بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے آئندہ چند روز میں برطانیہ کے دورے کے پیش نظر برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پاکستانی نژاد رکن لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف مہم میں شرکت کریں گے۔

کراچی پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم 17 اپریل کو نریندر مودی کے برطانیہ آمد سے دو روز قبل مہم کا آغاز کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کے پیچھے ہمارا مقصد بھارتی فورسز کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کارروائیوں پر احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔

مزید پڑھیں: کشمیر: بھارتی فوج کی فائرنگ سے 17 نوجوان جاں بحق

انہوں نے بتایا کہ اس مہم میں لندن کی ڈبل ڈیکر بسوں، گیس کے بلوں اور ٹی شرٹس پر پوسٹرز آویزاں کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں مقیم سکھ برادری نے بھی اس مہم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ اب تک کسی نے بھی اس مہم کے لیے فنڈز نہیں دیئے اور ان کے بینک اکاؤنٹس کو چیک کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ صرف مہم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

لارڈ نذیر کے مطابق کشمیر ان کا گھر ہے اور اس نے نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے بھارتی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تشدد کی کارروائیوں میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے غیر مسلح اور امن پسند جدوجہد پر اعتماد ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی مظالم پر خاموش رہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے حکومتی عہدیدار کی مقبوضہ کشمیر میں قتلِ عام بند کرنے کی اپیل

انہوں نے آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کشمیر میں ہونے والے واقعات پر خاموش ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری کو معاملے پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایسی خاموشی ظلم اور ظالم کی حمایت کے مترادف ہے۔

لارڈ نذیر نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر موثر کردار ادا نہیں کیا کیونکہ گزشتہ 4 سالوں میں ملک میں کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاملے پر صرف ایک مرتبہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بات کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سربراہان کی جانب سے کوئی موثر اقدامات سامنے نہیں آئے اور اس طرح کے رویے سے کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔


یہ خبر 9 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں