استبول میں ہفتہ وار چھٹیوں کے دن عام طور پر بیشکتاش کے علاقے میں واقع کافی شاپس پر بیٹھے گزرتے ہیں۔ اس علاقے میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی نوجوان شہری آبادی غالب نظر آتی ہے۔ جس کافی شاپ میں میرا اکثر جانا ہوتا وہاں دیوار پر محمد اقبال کی شاعری کا ایک مصرع فریم میں آویزاں ہے، یہ مصرع ’محاورہ مابین خدا و انسان‘ نظم کا ہے۔ یہ نظم اقبال کی فلسفیانہ شاعری کی ایک تصنیف ’پیامِ مشرق‘ میں شامل ہے۔ یہ مصرع کچھ یوں ہے کہ تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔

تصویر بشکریہ لکھاری
تصویر بشکریہ لکھاری

بطور ایک نوجوان پاکستانی پورے ترکی کا سفر کرتے ہوئے مجھے یہاں تاریخی اعتبار سے اہمیت کے حامل معاشرے میں زندگی کے مختلف حصوں اور ان کے رنگ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جن میں یہاں کی تعمیرات، شاعری، فلسفہ اور دانشورانہ سوچ شامل ہے۔ ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے یا پھر کسی جگہ پر بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کئی بار اجنبی لوگوں سے گفتگو کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ’آپ کہاں سے ہیں‘ اور میرا جواب ہوتا ہے ’پاکستان سے۔‘ میرا جواب سن کر پوچھا جاتا ہے کہ ‘اچھا، تو کیا آپ محمد اقبال سے آشنا ہیں؟‘

گزشتہ 4 برسوں کے دوران نہ جانے کتنی بار میری بطور ایک پاکستانی شناخت کو میرے خطے کے عظیم دانشوروں میں سے ایک کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ جو بات مجھے سب سے زیادہ حیرت میں ڈالتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کا ذکر مجھے عالم و فاضل اساتذہ یا طلبہ سے سننے کو نہیں ملتا بلکہ سڑک پر مختلف اشیاء بیچنے والوں اور چائے والوں سے سننے کو ملتا ہے۔

پڑھیے: مسجدِ قرطبہ، عشق، اور فکرِ اقبال

ان لوگوں سے بات کرکے مجھے اقبال کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ جس قدر اقبال ترک دانشوروں کے حلقے میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں اسے دیکھ کر یہ چاہ پیدا ہوئی کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی وہ کون سی بات ہے جو انہیں اس قدر ہمہ گیر اور اہمیت کا حامل بناتی ہے۔

ترک ریاست میں لوگوں کی جانب سے محمد اقبال کو پسند کرنے کی ایک بڑی وجہ اقبال کا دیا گیا مسلم سیاسی تصور ہے۔ انہوں نے مغربی معاشروں میں تعلیم حاصل کی، ایک سے زائد زبانوں میں شاعری کی اور اسی دوران برطانوی نوآبادیاتی نظام اور اس میں مسلمانوں کے حالات کو دیکھا۔ اسی دور میں اقبال نے ترکی کے حالات جیسے بالکن جنگیں، خلافت کا خاتمہ اور ایک جدید جمہوریہ کے اُبھار کا بھی بغور مشاہدہ کیا۔

مرمارا یونیورسٹی کے پروفیسر رحیم نے بتایا کہ،

’اقبال جدید اسلامی تصور کے حوالے سے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ اسلامی کلچر کے بارے میں کافی زیادہ علم رکھتے تھے، وہ اپنے دور میں مسلم اور مغربی معاشروں کو درپیش چیلنجز کا پورا فہم رکھتے تھے۔ اسی دور میں ترک معاشرے میں، جب پہلی عالمی جنگ کے واقعات پیش آرہے تھے تب ایسا کوئی دانشور نہیں تھا کہ جو اقبال جیسی شدت اور گہرائی رکھتا ہو۔‘

پڑھیے: جرمنی میں اقبال کی تلاش

اقبال کی کتاب کنسٹرکشن آف ریلیجئس تھوٹ ان اسلام (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) یا تجدیدِ فکریاتِ اسلام کو جدید اسلامی تصور میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی دنیا کی تمام قوموں کو اپنے وژن کو قبول کرنا چاہیے اور اپنے وجود کو خودمختار بنانا چاہیے۔ اس طرح ہر قوم کو اپنی خامیوں کو ختم کرنے، بطور ایک برادری اپنی روح کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور یوں ایک بہتر اسلامی شناخت قائم ہوگی۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ارتقاء اور تجدید اسلام پر ان کے خیالات نے ہی ترک دانشوروں کو انہیں پڑھنے اور ان کے تصورات کو اپنانے کی ترغیب دی۔ پروفیسر رحیم بتاتے ہیں کہ

’ترکی میں شعبہ مطالعہ مذاہب میں فلسفہ مذہب پر کورس کے بانی محمد آیدن نے اقبال کو بے تحاشہ پڑھا اور ان کے خیالات کو اپنے تناظر میں پیش کیا۔ جو دانشور انہیں پڑھتے ہیں اور بات جب فلسفے اور مذہبیت کی آتی ہے تو وہ دانشور اقبال کی منفرد سوچ سے خود کو منسلک سا محسوس کرتے ہیں۔‘

پروفیسر رحیم، محمد اقبال اور محمد عاکف ارصوی کے درمیان مماثلت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ دونوں کم و بیش ایک ہی دور کے فلسفی اور قومی شاعر ہیں۔‘

میری لیے یہ بات حیران کن نہیں تھی کیونکہ مجھے یاد ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر ان دونوں دانشوروں کی تصویروں سے مزین ڈاک ٹکٹ کا اجراء کیا گیا تھا۔

پڑھیے: اقبال کی محبت، اقبال کی زندگی

استنبول میں ایک ڈچ صحافی سے گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ اقبال کا کام نہایت اثر رکھتا ہے اور ہر دور میں اس کی اہمیت ہے، حتٰی کہ آج بھی۔ صحافی کہتے ہیں کہ،

’مجھے اقبال کے حوالے سے جو بات حیران کرتی ہے وہ ہے ان کی نطشے کے تصورات سے ان کی مماثلت۔ جب بات جدید تصور پر تنقیدی جائزے کی آتی ہے تو ان میں آپ کو ہمہ گیریت دیکھنے کو ملتی ہے۔‘

یہاں اقبال کے 13ویں صدی کے دانشور اور صوفی شاعر جلال الدین رومی سے لگاؤ کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ جلال الدین رومی کونیہ میں دفن ہیں، کونیہ کو درویشوں کا شہر بھی پکارا جاتا ہے۔ اقبال پر رومی کا روحانی اثر اس قدر تھا کہ رومی کی آخری آرام گاہ کے قریب ایک یادگار نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ، ’یہ یادگار پاکستان کے قومی شاعر اور مفکر محمد اقبال کی یاد میں ان کے روحانی استاد جلاالدین رومی کی موجودگی میں نصب کی گئی ہے۔‘

اقبال ایک عظیم دانشور ہیں۔ ان کی لیگیسی اور اسلامی تصور نہ صرف خصوصی اہمیت رکھتا ہے بلکہ برِصغیر کے لوگوں کو امید دلاتا ہے اور ان کے دلوں میں نرمی پیدا کرتا ہے، ان کے فکر کی گونج ترکی اور دنیا کے لوگوں میں بھی سنائی دیتی ہے، جیسا کہ آج کے دن ہم ان کا 80واں یومِ وفات منا رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس حقیقت کو محسوس کریں کہ وہ پاکستان میں ایک بلند پایہ کے دانشور ہیں۔ ان کا تصور ایک شخص کے روحانی سفر کو مختلف مقامات پر آپس میں جوڑ دیتا ہے، جو فرد اور برادری کے ارتقاء کی صورت نظر آتا ہے، حتٰی کہ آج بھی۔

یہ مضمون 20 اپریل 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

moviesbelt.com Apr 21, 2018 11:46pm
subhan Allah kia zindagi kia soch thi or kia soch Dr alama muhammad iqbal ne agay nojwanu ko deliver ki sb se pehle tauhid parast musalman thay baresagir main. or jo shan Allah or rasool Allah SAW ki byan ki inho ne apni shairi main us ka to jawab nahi... bohat he umda article tha sir maza aa gaya
Ali Apr 21, 2018 11:51pm
Very Nice and timely article.
Ali Apr 21, 2018 11:51pm
Very nice and timely article