ہانگ کانگ: ای کامرس کی کمپنی علی بابا سمیت چین کی دیگر بڑی کمپنیوں کو ملازمت کے اشتہارات میں صنفی تعصب برتنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق چین میں خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع محدود ہوتے جارہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق صنفی عدم مساوات پر مبنی ’ضرورت برائے مرد ملازمین‘ کے عنوان سے شائع کیا جانے والا اشتہارات، دراصل نجی کمپنیوں اور عوامی اداروں کی جانب سے جرائم کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کے اشتہارات اصل میں اُس قدیم اور روایتی سوچ کے عکاس ہیں جس کے تحت خواتین، مردوں کے مقابلے میں کم صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ گھر کی ذمہ داریوں کے سبب ملازمت کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا نہیں کرسکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’مرد ذہنی طور پر عورتوں سے کمزور

رپورٹ کے مطابق ملازمت میں صنفی تعصب روا رکھنے کے باعث خواتین ملازمین کی تعداد میں کمی ہوتی جارہی ہے جبکہ صنفی بنیادوں پر اجرت میں امتیاز بھی بڑھتا جارہا ہے حالانکہ اس قسم کا عدم مساوات، چین میں غیر قانونی ہے، لیکن قوانین غیر واضح ہیں اور ان کا مکمل طور پر اطلاق بھی نہیں ہوتا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں علی بابا، ٹینسنٹ اور بائیڈو کے تمام شائع شدہ اشتہارات میں واضح طور پر درج تھا کہ مرد درخواست گزاروں کو فوقیت دی جائے گی۔

واضح رہے کہ ’علی بابا‘ پر اس قبل بھی بھرتی کی کارروائی کو پرکشش بنانے کے لیے خوبصورت خواتین کو استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، جنہیں سوشل میڈیا پر ’علی بیوٹیز‘ اور ’دیوی‘ کا نام دیا گیا جبکہ ٹینسینٹ، بائیڈو اور ہواوے کمپنیوں نے بھی خواتین ملازمین کی خوبصورتی کو اشتہارات میں استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک خاتون لیبر فورس کا حصہ ہے، اقوام متحدہ

ہانگ کانگ میں رپورٹ کی اشاعت کی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کا کہنا تھا کہ کمپنی کے سربراہان پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی سالانہ رپورٹ میں صنفی تعصب کا کوئی ذکر نہیں اور آپ اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوں تو بدقسمتی سے یہ آپ کی ناکامی ہے، اس معاملے پر سنجیدگی سے عمل کی ضرورت ہے۔

کمپنیوں کی جانب سے شرمندگی کا اظہار

ہیومن رائٹس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ’ٹینسینٹ‘ کی جانب سے معذرت جاری کی گئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ کمپنی ایسے اشتہارات دیئے جانے کی تحقیقات کرے گی اور اس ضمن میں جلد مناسب تبدیلیاں کی جائیں گی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ٹینسینٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم مذکورہ واقعے پر معذرت خواہ ہیں اور مستقبل میں ایسی کسی بھی قسم کی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں گے‘۔

جبکہ علی بابا کمپنی کی جانب سے دیئے گئے بیان میں کہا گیا کہ ہم اپنے اشتہارات کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کمپنی کی صنفی مساوات کی پالیسی متاثر نہ ہو۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے علی بابا کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس رپورٹ میں پرانے اشتہارات کا تذکرہ کیا گیا جو 2012 سے 2015 کے درمیان شائع ہوئے، ایسے اشتہارات کو کمپنی کی پالیسی سے متصادم ہونے کے سبب پہلے ہیں ختم کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘باہمت خاتون کو سخت عورت کا نام دیا جاتا ہے‘

جبکہ تیسری بڑی کمپنی بائیڈو نے صنفی تعصب پر مبنی اشتہارت کی اشاعت پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ہیومن رائٹس رپورٹ آنے سے قبل ہی ان اشتہارات پر کارروائی کی جاچکی ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ ملازمتوں کے لیے دیا گیا یہ اشتہار ایک علیحدہ معاملہ تھا، جو کسی بھی طرح صنفی مساوات روا رکھنے سے متعلق کمپنی کی کوششوں کا مظہر نہیں۔

اس کے علاوہ حکومتی اداروں کو بھی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق سرکاری ملازمت کے ہر 5 میں سے ایک اشتہار میں ’صرف مرد حضرات‘ یا ’مردوں کو فوقیت دی جائے گی‘ تحریر ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرین کنڈیکٹر کی ملازمت کے اشتہار میں درخواست دینے والی خواتین کا اسمارٹ، فیشن ایبل اور خوبصورت ہونا شرط رکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’جنسی ہراساں کرنا کسی طرح بھی درست نہیں‘

99 صفحات پر مشتمل ہیومن رائٹس کی اس رپورٹ میں 2013 سے 2018 کے دوران، ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیوں کی ویب سائٹس، سوشل میڈیا پر شائع کیے جانے والے 36 ہزار اشتہارات کا جائزہ لیا گیا۔

واضح رہے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کو حکام کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے باعث یہ تحقیقات محدود کردی گئیں۔

البتہ، کچھ خواتین نے صنفی تعصب پر مبنی اشتہارات کی اشاعت پر کمپنیوں پر مقدمہ بھی کیا، لیکن عدالت کی جانب سے ان پر کیا گیا جرمانہ انتہائی معمولی تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف دنیا بھر میں جاری ’می ٹو‘ مہم چین میں بھی شروع کی گئی، لیکن حکام نے ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کو نہ صرف ڈیلیٹ کردیا بلکہ اس قسم کی گفتگو کے مواقع فراہم کرنے والے فورمز کو بھی بند کردیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں