قاہرہ: مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے امکان ظاہر کیا کہ شام میں عرب افواج پر مشتمل دستے بھیجنے کا معاملہ بہت سے عرب ممالک میں زیرِ غور ہے۔

مصری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ سامح شکری کے بیان کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مصر خود اپنی فوج شام بھیجنے کے لیے تیار ہے تاہم یہ فیصلہ آئینی رکاوٹوں سے مشروط ہوگا۔

واضح رہے کہ سامح شکری نے درج بالا بیان ایک تقریب میں شرکت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا۔

یہ بیان گزشتہ ماہ وال اسٹریٹ جنرل کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے تناظر میں سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں عرب افواج پر مشتمل دستے بھیجنے کی کوششیں کررہے ہیں جو امریکی افواج کی جگہ تعینات کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مصر، شام کا بحران ختم کرانے میں مدد کرے، پاکستان

مصری اخبارالاحرام کے مطابق شام کی صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سامح شکری کا کہنا تھا کہ ایک فوج کو عرب دستوں پر مشتمل دوسری فوج سے تبدیل کرنا ممکن ہے۔

اسی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے ساتھ یہ موضوع سرکاری عہدیداروں کے درمیان بھی زیرِ بحث ہے کہ اس طرح فوج بھیجنا شام کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کس حد تک معاون ثابت ہوگا۔

سامح شکری نے ان ممالک کا نام لینے سے گریز کیا جو اس معاملے پر غور کررہے ہیں، تاہم مصری وزارتِ خارجہ کے ایک عہدیدار احمد ابو زید کا کہنا تھا کہ سامح شکری کا بیان مصری موقف کو ظاہر نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں: مصر کی شام پر اسرائیلی حملوں کی مذمت

انہوں نے مزید کہا کہ مصری افواج کو کسی دوسرے ملک بھیجنے کے قوانین سے ہر کوئی واقف ہے، ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس سلسلے میں آئین کے مطابق اقدامات نہ کیے جائیں، یا اس بارے میں موجود ان قوانین و ضوابط پر عمل کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ کے امن مشن میں مصری فوج کی شمولیت کے حوالے سے کیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ عرب دنیا میں سب سے بہترین فوج اور سب سے زیادہ آبادی والا ملک مصر ہے، دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کردہ بیان میں اتحادی افواج کے ہمراہ سعودی فوج بھیجے جانے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں لاکھوں لوگ قتل ہوچکے ہیں جو باغیوں کی جانب سے شام کے صدر بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے شروع کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ’مصر میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے‘

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ 7 سال سے جاری اس تنازع میں اب تک لاکھوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں، اور جو شورش زدہ علاقوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے وہ شام کے شمال مغربی حصے اِدلیب میں قائم کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جن کی صورتحال ابتر ہے۔


یہ خبر ڈان آخبار میں 5 مئی 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں