بیروت: شام کے شمال مغربی علاقے میں مبینہ طور پر سرکاری فوج کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے میں 15 شہری ہلاک ہوگئے۔

مذکورہ کارروائی حکومت کے زیر اثر 2 محصور گاؤں میں کی گئی جو بظاہر باغیوں کی جانب سے کیے گئے حملے کا جواب تھی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں واقع قصبوں اور دیہاتوں کو سے اس حملے میں نشانہ بنایا گیا، مذکورہ صوبہ تقریباً مکمل طور پر باغیوں اور مزاحمت کاروں کے زیر اثر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شام: فضائی حملوں میں 19 افراد ہلاک

اس حوالے سے برطانیہ میں موجود سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائیٹس کا کہنا تھا کہ تفتناز کے علاقے میں فضائی حملوں میں 10 شہری ہلاک ہوئے جس میں 4 بچے بھی شامل تھے۔

آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ حملہ بچوں کے ہسپتال کے نزدیک کیا گیا،جس کی وجہ سے ہسپتال غیر فعال ہوگیا اس کے علاوہ دیگرعلاقوں حملوں کے دوران مجموعی طور پر مزید 5 افراد ہلاک ہوئے۔

واضح رہے کہ یہ فضائی کارروائی شام میں القاعدہ کی سابق عسکری اتحادی تنظیم کی جانب سے فوا اور کفریا گاؤں میں حملوں کے آغاز کے بعد کی گئی، حیات طاہریر الشمس (ایچ ٹی ایس)اور اتحادی جنگجوؤں نے فوا اور کفریا میں بھاری گولہ باری کی جس کے باعث مقامی جنگجوؤں کے درمیان تصادم ہوا۔

مزید پڑھیں: شام : فضائی حملوں میں 30 افراد ہلاک، واچ ڈاگ

عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ یہ گزشتہ 3 سال میں ہونے والا اب تک کا سب سے شدید حملہ ہے، جو جہادیوں کے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا، مذکورہ جھڑپوں میں شامی حکومت کے 6 اتحادی جبکہ ایچ ٹی ایس کے 3 جنگجو ہلاک ہوئے۔

شامی سرکاری نیوز ایجنسی سانا کے مطابق ہفتے کی رات ہونے والے اس حملے میں مقامی جنگجو باغیوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہے.

واضح رہے مذکور دونوں گاؤں میں 8 ہزار ایک سو افراد رہائش پذیر ہیں جن میں زیادہ تر اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، دونوں گاؤں اس وقت محصور ہوگئے تھے جب 2015 میں باغیوں نے سرکاری افواج کو بے دخل کر کے ادلب صوبے کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام: فضائی حملوں کا نشانہ عام شہری

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 7 سال پر محیط اس تنازع میں حکومت کی جانب سے علاقوں کو محصور کیے جانے کا حربہ متعدد بار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ادلب ترکی کی سرحد سے ملحقہ صوبہ ہے جس کی آبادی حالیہ چند سالوں میں 20 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے علاقوں سے بے دخل ہونے والے افراد اور جنگجو یہاں آ کر آباد ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مذکورہ صوبے کو کچھ حد تک پرامن سمجھا جانے ولا علاقہ قرار دیا گیا تھا تاہم یہاں پر تشدد کارروائیاں اب دوبارہ سر اٹٓھا رہی ہیں۔


یہ خبر 11 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں