امریکا نے روس میں سیاسی اور مذہبی قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

امریکی دفتر خارجہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ ’امریکا کو روسی حکومت کی جانب سے حراست میں لیے جانے والے سیاسی اور مذہبی قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر سخت تشویش ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ روس میں قید کیے جانے والے سیاسی اور مذہبی قیدیوں کی تعداد 150 سے تجاوز کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: روس میں پیوٹن مخالف مظاہرے، سیکڑوں افراد گرفتار

امریکی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم روس سے کہتے ہیں کہ وہ ان قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرے۔

خیال رہے کہ رواں سال مئی میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے ایک مرتبہ پھر صدارت کا منصب سنبھالے جانے کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

احتجاج کے دوران ولادی میر پیوٹن کے حریف الیگزی نوالنے کے اعلان پر ملک بھر میں لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے تھے تاہم پولیس نے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے الیگزی نوالنے سمیت 1600 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے ’پیوٹن چور ہے‘ اور ’روس آزاد ہوگا‘ کے نعرے لگائے، تاہم پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا تھا، اس کے علاوہ مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ولادی میر پیوٹن ہمارے ’سار‘ (مشرقی یورپ میں سپریم لیڈر کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخاب میں روسی ’مداخلت‘: ’مجھے اس کی پرواہ نہیں‘

یاد رہے کہ ولادی میر پیوٹن گزشتہ 18 برس سے روس پر حکمرانی کر رہے ہیں، جنہوں نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت کے دوران 2014 میں یوکرین سے ملحقہ کریمیا پر اپنا قبضہ جمایا جبکہ 2015 میں شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران بشار الاسد کی فورسز کی حمایت میں فوجی مہم کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ ولادی میر پیوٹن نے 2014 میں کرائما پر روسی قبضے کے بعد بین الاقوامی پابندیوں اور 2016 میں تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر پڑنے والے اثرات کے باوجود ملکی معیشت کو جلا بخشنے کے لیے کوششیں کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں