سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر ڈان ڈاٹ کام کے نام سے جعلی پوسٹ کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

فیس بک پر گردش کرنے والی اس جعلی پوسٹ میں عوام اور اسٹیک ہولڈرز کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو سرکاری سرحد کے طور پر قبول کرنے کی تجویز دی ہے۔

اس جعلی پوسٹ میں افغانستان کے مشیر قومی سلامتی حنیف اتمار اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تصویر دکھائی گئی ہیں جس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: فیس بک نے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو 'پاکستانی قانون کی بنیاد' پر بلاک کردیا

فیس بک پر پوسٹ کی گئی جعلی تصویر میں ڈان کے سوشل میڈیا اور فیس بک لے آؤٹ کو نقل کیا گیا، جس کی وجہ سے افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی، جس میں اس پوسٹ کو غلطی سے درست سمجھا گیا۔

تاہم مستقبل میں عوام اور اتھارٹی کو اس طرح کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ کار سے فیس بک کے پوسٹ کے جعلی ہونے کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔

وقت کی مہر

فیس بک کی پوسٹ میں پبلشر کے نام کے نیچے ایک وقت کی مہر اور پرائیویسی کا نشان موجود ہوتا ہے۔

تاہم جعلی تصویر میں وقت کی مہر کی جگہ ’3 ایس ٹی ڈی‘ لکھا گیا تھا جبکہ فیس بک منٹ، گھنٹے اور دن کے لیے اسٹینڈرڈ فارمیٹ ’34 منٹس، 2 گھنٹے اور جمعہ‘ اس طرح درج ہے۔

لائک کے نشان کی جگہ

واضح رہے کہ فیس بک لائک کے لیے انگھوٹے کا نشان پوسٹ کے نیچے ہوتا ہے لیکن جعلی پوسٹ میں یہ نشان مینیو بٹن کے قریب اوپر دائیں جانب دکھایا گیا جبکہ یہ مینیو بٹن کے ساتھ بھی صحیح طریقے سے منسلک نہیں تھا۔

ڈان کے اسٹائل سے مختلف

فیس بک پر کیے گئے اس جعلی پوسٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعارف ’پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ کے طور پر کیا گیا جبکہ ایک پاکستانی اشاعت کو اپنے قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے آرمی چیف ہیں۔

ڈان کی زیادہ تر خبروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعارف ‘چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ‘ کے طور پر کیا جاتا ہے، اس حوالے سے ڈان ڈاٹ کام کی خبروں سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ ڈان کی جانب سے آرمی چیف کے لیے (COAS) کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ جعلی پوسٹ میں اس کو (CoAS) تحریر کیا گیا، جو طریقہ کار مختلف ہے۔

جعلی پوسٹ میں ڈیورنڈ لائن میں لائن کے حروف تہجی کو بڑے الفاظ میں بھی نہیں لکھا گیا جو ڈان کا انداز نہیں۔

اسی طرح فیس بک پر گردش کرنے والی اس جعلی پوسٹ میں خبر کا اختتام ایکسکلیمییشن مارک سے کیا گیا جبکہ پالیسی کے تحت ڈان اس طرح کے نشان سخت خبروں میں استعمال نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان ڈاٹ کام کے لیے 2 عالمی ایوارڈز

واضح رہے کہ مندرجہ بالا بتائی گئی تمام باتوں کی ڈان ڈاٹ کام کی خبروں اور فیس بک پیج سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

یاد رہے کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈان ڈاٹ کام کا نام استعمال کرکے جعلی خبروں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔

اس سے قبل گزشتہ برس 2017 میں جنوری سے اپریل کے دوران ڈان ڈاٹ کام پر متعدد سائبر حملے کیے گئے تھے، جس میں ادارے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور اسٹاف کے اکاؤنٹس کو ہیک اور ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم یہ تمام کوششیں ناکام ہوئی تھیں اور ادارے کی جانب سے اس وقت بیان جاری کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نفرت انگیر تقریر اور مواد جو توہین آمیز، نامناسب، ممنوع، غیر قانونی یا جو سماجی طور پر پریشانی کا باعث بنے اسے برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ہیکرز اور بدنیتی پر مبنی گروہوں کی جانب سے ڈان کی ساکھ کو خراب کرنے اور اپنے ایجنڈے کے فروغ کے لیے منفی مہمات چلائی جارہی ہیں اور اس طرح کی آن لائن مہمات سے ڈان کو ماضی میں بھی ہدف بنایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں