پشاور: خیبرپختونخوا میں بڑی سیاسی جماعتوں نے مسیحی برداری کو قطعی نظر انداز کردیا، صوبے کی مخصوص قومی اور صوبائی نشست پر سب سے بڑی اقلیتی برداری سے کسی امیدوار کو منتخب نہیں کیا گیا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں جمع کرائی گئی فہرست میں ترجیج ہندو اور سکھ کو دی گئی ہے۔

سیا سی جماعتوں کی جانب سے امتیازی سلوک برتنے پر مسیحی برادری انتخابات 2018 سے خود کو علیحدہ رکھنے پر غور کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عام انتخابات: پہلی بار اقلیتی نشست کیلئے ’کالاش‘ شخص امیدوار نامزد

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی فریڈریک عظیم نے بتایا کہ ’ہم سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے اور سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدوار کو ووٹ نہ دیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے خیبرپختونخوا میں آباد 2 لاکھ نفوس پر مشتمل مذہبی اقلیت کو نظر انداز کیا ہے جس سے صوبے میں مشنری اداروں کی کارکردگی متاثرہوگی۔

سابق رکن اسمبلی نے بتایا کہ ’ہمارے اکابرین بھی پریشان ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی جانب مسیحی برادری کو کن بنیادوں پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے‘۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ مسیحی برادری نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے، ہم کسی دوسری اقلیتی براردی کے خلاف نہیں لیکن مسیحی برادری کے مقابلے میں ان کی تعداد محض چند ہزار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقلیتوں کے ووٹ ان کے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے؟

انہوں نے کہا کہ 6 سیاسی جماعتوں نے پنجاب سے مسیحی برادری کے امیدوار نامزد کیے لیکن خیبرپختونخوا میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔

ای سی پی میں جمع کرائے گئے دستاویزات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے نصیب چند، دیا رام اور جمیل میسح کو نامزد کیا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سریش قمر، شکیل چندر، نگہت بی بی کو نامز دکیا۔

پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد کردہ میسحی برداری کے امیدوار وں نے بھی اپنی قیادت پرا عتراضات اٹھائے ہیں۔

پشاور سے پی پی پی کے امیدوار شہزاد اقبال نے کہا کہ لسٹ کو ترتیب دیتے وقت میسحی برادری کو نظر انداز کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کالاش اپنی پہچان کے تحفظ کیلئے کوشاں

پی ٹی آئی گروپ سے تعلق رکھنے والے وقاص کھوکر کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ لسٹ میں مسیحی برداری کو بہت اہمیت دی گئی لیکن اس مرتبہ ہمارے لوگوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔


یہ خبر 24 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں