کالاش اپنی پہچان کے تحفظ کیلئے کوشاں

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2016
طالب علم اسلام کے اوپر لازمی کلاس لیتے ہیں ، مگر اپنی روایات کے متعلق نہیں پڑھتے– فوٹو: اے ایف پی
طالب علم اسلام کے اوپر لازمی کلاس لیتے ہیں ، مگر اپنی روایات کے متعلق نہیں پڑھتے– فوٹو: اے ایف پی

چترال: پاکستان کی ایک چھوٹی سے مذہبی اقلیت کالاش اپنی زبان بولتی ہے اور موسیقی و رقص کے ذریعے اپنے معبودوں کو مناتی ہے۔

کالاش میں زندگی بقیہ ملک سے بالکل مختلف ہے۔ یہاںمرد و عورت باآسانی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور رقص کے ذریعے شادی کی جا سکتی ہے جب کہ خواتین اپنی نئی محبت کے انتخاب کے لئے آزاد ہیں۔

کالاش کےطالب علم ایک کلاس لے رہے ہیں—اے ایف پی۔
کالاش کےطالب علم ایک کلاس لے رہے ہیں—اے ایف پی۔

اس کے باوجود کالاش کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان کی انوکھی ثقافت کوبرداشت نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان کی روایات کو بچانے والے نوجوان، بڑی تعداد میں اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کالاش نے یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے کے لیے 2008 سے جدوجہد شروع کی،مگر آٹھ سال گزرنے کے باوجود وہ سست نوکر شاہی کا شکار ہے۔

کالاش پر ڈان کا خصوصی فیچر اس لنک پر دیکھیں: کالاش کہانی

ماہرین نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ گورا رنگ اور روشن آنکھیں رکھنے والے کالاش کے باسیوں کا شجرہ نسب قدیم مشرقِ وسطیٰ یا سکندِ اعظم کے سپاہیوں سے جا کر ملتا ہے جنہوں نے اس علاقے کو چوتھی صدی قبلِ مسیح میں فتح کرلیا تھا۔

کالاش پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک(کے پی ڈی این) کے کارکن لیوک رحمت ایک عمارت کے قریب کھڑے ہیں—اے ایف پی۔
کالاش پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک(کے پی ڈی این) کے کارکن لیوک رحمت ایک عمارت کے قریب کھڑے ہیں—اے ایف پی۔

کالاش پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک(کے پی ڈی این) کے مطابق صدیوں پہلے انہوں نے چترال پر حکمرانی کی مگر اب وہ تعداد میں صرف 3000 رہ گئے ہیں، اور ان کی روایات اب خطرے میں ہیں۔

یہاں اسکول میں طالب علموں کو اپنی روایات کے متعلق نہیں پڑھایا جاتا جب کہ کالاش اپنی زرعی طرزِ زندگی سے دور ہوکر تجارت، پڑھائی اور شہروں میں کام کرنے کے لیے جانے لگے۔

انہیں کچھ مسلمانوں کی جانب سے غصے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کاخیال ہے کہ کالاش کی غیراسلامی حرکتوں نے خدا کے قہرکو دعوت دی ہے اور اسی وجہ سے علاقے میں سیلاب اور زلزلےآ رہے ہیں۔

اسی دباؤ کی وجہ سےزیادہ تر لوگ اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں ۔

کالاش پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک(کے پی ڈی این) کے کارکن لیوک رحمت اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے—اے ایف پی۔
کالاش پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک(کے پی ڈی این) کے کارکن لیوک رحمت اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے—اے ایف پی۔

کے پی ڈی این کے ایک سرگرم کارکن لیوک رحمت کاکہنا تھا کہ ‘کالاش ایک زندہ تہذیب ہے اور اسے حکومتِ پاکستان کی جانب سے قانونی تحفظ دینا چاہیے۔’

انہوں نے سرکاری حکام پر پر الزام لگایا کہ وہ کالاش کو یونیسکو کی فہرست شامل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔’ابھی تک اس معاملے پر کوئی مثبت کام نہیں کیا گیا’۔

باشالی گھر

اسلام آبا میں موجود یونیسکو کے ثقافتی افسر، جواد عزیز کا کہنا تھا کہ کالاش کے انوکھے تہوار اور رسومات اس قبیلے کو فہرست کے لیے اہل بناتے ہیں۔

اکتوبر 2015 میں لی گئی اس تصویر میں کالاش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے—اے ایف پی۔
اکتوبر 2015 میں لی گئی اس تصویر میں کالاش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے—اے ایف پی۔

کالاش کی مختلف روایات میں نمایاں ہر گھر میں موجود’باشالی’ کا گھرہے، جہاں عورتیں حیض کےدنوں میں رہتی ہیں ۔ کالاش کی خواتین کو حیض کے دوران 'ناپاک' سمجھا جاتا ہے، اور وہ کسی کو چھو نہیں سکتیں ۔

باشالی گھر میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہوتاہے اور 'حیض' کے عرصے کے دوران خواتین وہاں کتابیں پڑھ کراورکپڑےسی کر اپنا وقت گزارتی ہیں ۔ ان خواتین کے لیے کھانا روزانہ اُن کے گھر والے دروازے پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

کالاش اپنے مرنے والوں پر رونے کے بجائےخوشی مناتے ہیں جس کے بارے میں رحمت کا کہنا ہے کہ یہ اس سفرکا اختتام ہوتا ہے جو کہ پیدائش کے بعد تین دن کے جش کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

۔—اے ایف پی۔
۔—اے ایف پی۔

شادی پر اتفاق رقص کے ذریعے کیا جاتا ہے اور پھر جوڑا بھاگ کر لڑکے کے گھر چلاجاتا ہے ۔ انہیں صرف اسی وقت کالاش قبیلے میں واپس خوش آمدید کہا جاتا ہے جب وہ دلہن کے والدین کے گھر ملنے آتے ہیں ۔ کالاش میں عورت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے شوہر کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کرلے لیکن اس صورت میں لڑکی کے نئے شوہر کو اس کی طے کردہ قیمت ادا کرنا ہوتی ہے ۔

یونیسکو اہلکار جواد عزیز کا کہناتھا کہ ان کی تنظیم، حکومت اور کالاش کے دومیان مشاورت 2012 میں ہوئی جس کے بعد سے اب تک کوئی سرکاری رابطہ نہیں ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ’حکومت پاکستان نے کالاش کی ثقافتی ورثے اورخطرات سے دوچار علاقوں کی حفاظت کیلئےاب تک کوئی دستاویز ات جمع نہیں کروائی ہیں’۔

کالاش کے طالب علم اسکول جارہے ہیں۔—اے ایف پی۔
کالاش کے طالب علم اسکول جارہے ہیں۔—اے ایف پی۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس عمل میں مزید وقت لگے گا ۔

لوک ورثہ کے ترجمان ساجد منیر، جنہوں نے 2012 میں مشاورت کی میزبانی کی تھی ،کا کہنا تھا کہ’ یونیسکو کی فہرست میں شمولیت کا طریقہ کار خاصا لمبا ہے، اور دوسرے ممالک میں اس کے لیے باقاعدہ الگ تنظیمیں ہوتی ہیں۔

کوئی ضمانت نہیں

چترال کی مقامی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ کالاش کی شناخت بچانے کیلئے وہ بھی اپنی پوری کوشش کررہےہیں۔

یہاں کی وادیوں نے بہت عرصے تک سیاحوں کو اپنی قدرتی خوبصورتی اور اس مشہور قبیلےکی موجودگی کی جانب مائل کیا ہے ۔

۔—اے ایف پی۔
۔—اے ایف پی۔

ضلعی انتظامیہ چترال کے افسر اسامہ احمد وڑائچ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ’جب میں یہاں پر تعینات ہوا تھا ، میرے اعلیٰ افسران نے اس بات پر زور دیا کہ میں صرف کالاش برادری کے اوپر توجہ مرکوز رکھوں اور ان کی ثقافت کے تحفظ کیلئے محنت کروں۔'

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘مقامی افراد نے باشالی کیلئےسینٹری پیڈ کی درخواست کی تھی جو ہم فراہم کر رہے ہیں۔ ہم نے منصوبہ بندی کی ہے کہ ہم ان کی عبادت گاہوں،تہوارمنانے کی جگہوں میں تجدید کریں گے۔’

رحمت نے حکومت کی کوششوں کو مسترد کردیا اور کہا کہ'وہ ہربار یہ کہتے ہیں کہ کالاش کے لوگ ہمارے دل کے قریب رہتے ہیں۔ اگر ہم ان کے اتنا قریب رہتے ہیں، تو پھر یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔'

جواد عزیز کا کہنا تھا کہ 'فہرست میں نام شامل ہوناکسی بھی حال میں حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں