ایک آزاد میڈیا اور ریاست اور اس کے عہدیداروں کے درمیان تعلق ضرورت کا احاطہ کرتا ہے اور یہ ایک جمہوری نظامِ حکومت میں پسندیدہ تعلق ہے۔ لیکن پاکستان میں جہاں ایک طویل عرصے تک وقفے وقفے کے ساتھ غیرجمہوری حکومتیں قائم رہی ہیں، وہاں ایسے تعلق کی سمت کو اکثر میڈیا پر تشدد اور دھمکیوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔

آج جہاں پاکستان مسلسل تیسری مرتبہ عام انتخابات وقت پر منعقد کرنے کی تیاری کر رہا ہے، وہاں پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان اور اس کے ملازمین کو ایک حقیقی پریشانی کا سامنا ہے۔ سال 2016 کے اختتامی دنوں سے ڈان اخبار کی ترسیل میں ایک منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر رکاوٹیں دیکھنے میں آئی ہیں، جبکہ مئی 2018 سے اس میں مزید شدت آگئی ہے۔

ڈان اخبار ماضی میں بھی ایسے چیلنجز سے نبرد آزما رہا ہے اور وہ تحمل کے ساتھ ان چیلنجز کا مقابلہ جاری رکھے گا، تاہم آج یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ڈان اور اس کے ملازمین کے خلاف آج ایک غلط معلومات، بہتان اور ہتک آمیز، نفرت اور مجازی اشتعال انگیزی کی مہم کے حوالے سے مخصوص معاملات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری

پاکستان میں سول ملٹری تناؤ کا شکار ہونے والوں میں ایک آزاد میڈیا بھی ہے جس نے آئینی سویلین بالادستی کو قبول کیا۔ 6 اکتوبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم ’شدت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی‘ نے ڈان کے خلاف دھمکیوں کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔

حکومت کے ایک بلاجواز ردِ عمل کے بعد ڈان نے قانون کے مطابق حکام کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی، تاہم ذرائع کی حفاظت کی صحافتی اقدار کا بھی دفاع کیا۔ مذکورہ معاملے میں ڈان کے ایڈیٹر اور رپورٹر حکومت کی جانب سے قائم کردہ سول اور فوجی خفیہ اداروں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے علیحدہ علیحدہ پیش ہوئے جن سے گھنٹوں گھنٹوں تک ناگوار اور کبھی کبھی ناقابلِ قبول سوالات پوچھے گئے۔

ڈان کے خلاف اس سازشی مہم کے اثرات جاری ہی تھے کہ گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے شائع ہونے والے انٹرویو کے بعد اخبار کے خلاف نئے اور شدید حملوں کا آغاز ہوا۔ ڈان کے خلاف گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بظاہر انتقامی اقدامات کیے گئے ہیں جو ایک خطرے کی گھٹی ہیں اور جس پر پاکستان کے تمام جمہوری اور آزاد سوچ کے حامل شہریوں کو تشویش ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی قرار

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے کچھ عناصر اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ان کی ذمہ داری آئین اور اس کی جانب سے دی جانے والی آزادی کی حفاظت ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ ’پاکستان کے تمام شہریوں کو آزادی اظہارِ رائے کا مکمل حق ہوگا، اور ملک میں صحافت کو بھی مکمل آزاد حاصل ہوگی‘۔

ایسی معقول پابندیاں جس کی آرٹیکل 19 اجازت دیتا ہے، انہیں ایک آزاد اور ذمہ دار میڈیا سمجھتا ہے اور ان کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تشریح کی گئی ہے۔

تمام آزاد اور خودمختار میڈیا اداروں کی طرح ڈان نے یہ بحث نہیں کی کہ یہ ادارتی فیصلے میں صحافتی غلطی نہیں کرتا۔ ڈان خود کو اپنے قارئین کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو آئین و قانون کے سامنے پیش کرتا ہے۔

ڈان ریاستی اداروں کے ساتھ بات چیت کو سراہتا ہے، تاہم اس سے شفاف اور منصفانہ صحافت کے اپنے عہد کو ترک کرنے کی امید نہیں لگائی جاسکتی، اور نہ ہی یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ ڈان اپنے ملازمین کو نقصان پہنچانے کے خطرے کو قبول کرسکتا ہے۔

ڈان کا اعلیٰ حکام سے مطالبہ ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیا جائے اور اس میں مناسب انداز سے مداخلت کی جائے۔


انگریزی میں پڑھیں:

یہ اداریہ 27 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں