الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے سرکاری، غیر حتمی نتائج جاری کر دیئے، جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن گئی ہے۔

قومی اسمبلی کی 270 میں سے 115 نشستیں تحریک انصاف کے نام رہیں۔

تاہم شاندار کامیابی کے باوجود تحریک انصاف کو اپنی جیتی ہوئی کئی نشستوں کو چھوڑنا پڑے گا، جس کے بعد ان ہی نشستوں پر اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اپنے قریبی ساتھیوں سمیت قومی اسمبلی کی کم سے کم 7 یا 6 نشستیں ہرحال میں چھوڑنا پڑیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ سرفہرست

عمران خان نے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے انتخابات لڑے تھے اور تمام میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔

یوں وہ ملکی تاریخ کے پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے تمام حلقوں سے وائٹ واش کیا۔

عمران خان نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے- 35 بنوں، این اے-53 اسلام آباد، این اے-95 میانوالی، این اے -131 لاہور اور این اے -243 کراچی سے انتخاب لڑا تھا اور تمام میں کامیابی حاصل کی۔

تاہم اب انہیں اپنی جیتی ہوئی 5 میں سے 4 نشستوں کو چھوڑنا پڑے گا اور وہ کون سی واحد نشست اپنے پاس رکھتے ہیں، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

عمران خان کی چھوڑی ہوئی باقی 4 نستوں پر دوبارہ انتخابات منعقد ہوں گے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ اپنی چھوڑی ہی نشستوں پر ان کی پارٹی دوبارہ کامیاب ہوگی۔

تاہم ان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے۔

ان کے علاوہ تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کو بھی اپنی نشستیں چھوڑنا پڑیں گی۔

تحریک انصاف کے رہنما غلام سرور خان کو ایک، میجر (ر) طاہر صادق کو بھی ایک اور ممکنہ طور پر پرویز خٹک کو بھی قومی اسمبلی کی واحد نشست چھوڑنا پڑے گی۔

سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس بار قومی اسمبلی کے ایک جب کہ صوبائی اسمبلی کے 2 حلقوں سے انتخابات لڑے تھے اور انہوں نے بھی تینوں میں کامیابی حاصل کی، تاہم انہیں بھی 2 حلقے چھوڑنا پڑیں گے۔

اطلاعات ہیں کہ پرویز خٹک کو دوبارہ وزیر علیٰ خیبرپختونخوا بنائے جانے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے امکان ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست این اے-25 نوشہرہ چھوڑ دیں گے۔

اسی طرح غلام سرور خان بھی 2 میں سے ایک اور میجر (ر) طاہر صادق بھی 2 میں سے ایک نشست چھوڑیں گے۔

چوہدری سرور قومی اسمبلی کے حلقوں این اے-59 راولپنڈی اور این اے-63 راولپنڈی سے انتخابات جیتے ہیں، تاہم وہ ایک نشست چھوڑیں گے۔

اسی طرح میجر (ر) طاہر صادق کو بھی این اے-55 اٹک اور این اے-56 اٹک میں سے ایک نشست چھوڑنا پڑے گی۔

عمران خان کی 4، چوہدری سرور اور طاہر صادق کی ایک ایک اور پرویز خٹک کی ایک قومی اسمبلی کی نشست کے بعد تحریک انصاف کو اپنی 7 نشستوں سے دوبارہ انتخاب لڑنا ہوگا اور یوں ان کی نشستوں کی تعداد عارضی طور پر 115 سے کم ہوکر 108 ہوجائے گی، تاہم دوبارہ کامیابی کی صورت میں وہ اس تعداد کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے پہلے سے ہی نشستوں کی کمی کا سامنا ہے، تاہم 7 نشستیں ایسی ہیں جن پر دوبارہ انتخاب میں وہ ناکامی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کون سی جماعت اور کامیاب آزاد امیدواروں کو کن شرائط پر راضی کرکے حکومت بناتی ہے یا پھر کوئی اور پارٹی حکومت سازی کے لیے آگے آنے کی کوشش کرتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anwer Jul 29, 2018 05:29am
دوسری طرف ہر آنے والے دن کے ساتھ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکان کم ہو رہی ہیں ، اسکی حاصل کردہ نشستیں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل سے کم ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ بھی تحریک انصاف کے روئیے سے نالاں نظر آ رہی ہے ایسی صورت میں اگر اتحادی رہنماؤں نے حکومت سازی کی کوشش کی تو نہ صرف انہیں عددی برتری ہے بلکہ ان کے مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹ تحریک انصاف کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا ہیں جو انہیں حکومت سازی کا اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں ، زیادہ تعداد میں سیٹیں حاصل ہونے کی وجہ سے حکومت سازی کا اخلاقی جواز پنجاب میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی مسلم لیگ کا حق تسلیم نہ کر کے تحریک انصاف نے خود ہی کھو دیا ہے اس صورت میں بلاول بھٹو وزیراعظم کے لئے موزوں ترین امیدوار ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں