اسلام آباد: غیر ملکی بینکوں میں تقریباً 200 ارب ڈالر کی پاکستانی رقم کے حوالے سے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ نئی حکومت کی ترجیح ہوگی کہ وہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجی گئی ’بڑی‘ رقم کو واپس ملک میں لے کر آئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسد عمر کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت پارلیمان میں یا تو نیا وفاقی بجٹ پیش کرے گی یا پھر موجودہ معاشی صورتحال سے نکالنے کے حوالے سے طریقہ کار بتایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 فیصد تک بڑھ گیا

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زیادہ لوگوں کے خرچوں میں کم افراد کے کام کرنے کے باوجود کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا بلکہ موجودہ عملے کو عوامی خدمت کے حوالے سے کام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم کسی مزدور کو برطرف یا گھر نہیں بھیج رہے اور نہ ہی ہماری حکومت بے روزگاری پیدا کرے گی‘۔

نئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہزاروں مزدوروں کو غلط نام استعمال کرکے پبلک سیکٹر میں شامل کیا گیا جس کے باعث پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان انٹرنیشل ایئرلائنز (پی آئی اے) جیسے اداروں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ سوائے 8 ارب ڈالر کی دبئی ریئل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی رقم شامل ہونے کے علاوہ ان سمیت کسی کو بھی نہیں معلوم کہ کتنی پاکستانی رقم لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی گئی۔

انہوں نے واضح کیا کہ بیرون ملک منتقل کی گئی رقم بڑی تعداد میں ہیں، وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے پہلے اجلاس میں اس معاملے پر ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور دو ہفتوں میں ملک کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے حوالے سے حکمت عملی بنانے کا وقت دیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ 200 ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کیے گئے لیکن سابق حکومت نے اس رقم کو واپس لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 روز میں عوام کیلئے ریلیف نہیں

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بونڈز کے اجراء کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا لیکن اصولی طور پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بیرون ملک مقیم لوگوں کو بونڈز اور سکوک جاری کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق حکومت نے ایک غیر حقیقی بجٹ پیش کیا جس کا زمینی حقائق سے کوئی موازنہ نہیں، لہٰذا وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ سنگین حالات سے باہر نکلنے کے لیے حقائق پارلیمان کے سامنے رکھے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں