ینگون: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق حقائق سامنے لانے پر ریاستی قوانین توڑنے کے الزام کا سامنا کرنے والے 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے صحافی 32 سالہ والون اور 28 سالہ کیاؤ سو او کو دسمبر میں گرفتار کرنے کے بعد ینگون کی جیل میں رکھا گیا تھا۔

دونوں صحافیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی رپورٹنگ کے دوران ریاست کے خفیہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور برطانوی سامراج کے زمانے کے رائج قوانین کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال تک ہے۔

مزید پڑھیں: میانمار: ’لاپتہ‘ صحافیوں کے ریمانڈ میں توسیع

تاہم صحافیوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی اور اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ برس ستمبر میں رخائن گاؤں میں 10 روہنگیا مسلمانوں کے ماورائے عدالت قتل کے حقائق سامنے لانے کے لیے انہیں وہاں بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ینگون پولیس کی جانب سے عشائیہ پر بلا کر انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کی دستاویزات رکھ لی گئیں، جس کے بعد انہیں خفیہ مواد رکھنے کے الزام میں حراست میں رکھا گیا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں نسل کشی کے دوران تقریباً 7 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان گزشتہ سال اگست کے مہینے سے ہجرت کرنے اور بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تاہم میانمار نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا اور متنازع علاقوں میں میڈیا اور اقوام متحدہ کی رسائی پر انتہائی سخت نگرانی کی گئی تھی۔

عدالت میں سماعت کے دوران جج یی لون نے ریمارکس دیئے کہ ’دونوں ملزموں نے ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے،لہٰذا ریاست کے خفیہ ایکٹ کے تحت دونوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے 7، 7 سال کی سزا سنائی جاتی ہے‘۔

اس موقع پر عدالت میں موجود ملزم کیاؤ سو او نے کہا کہ ’حکومت ہمیں جیل میں قید تو کرسکتی ہے لیکن لوگوں کی آنکھ اور کان بند نہیں کرسکتی‘۔

سزا سنائے جانے کے بعد دوسرے ملزم والون نے پراعتماد انداز میں فتح کا نشان بناتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس فیصلے کا استحکام اور جرأت سے سامنا کریں گے‘۔

دوسری جانب وکیل دفاع خن میان زاؤ کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف جلد از جلد اپیل دائر کی جائے گی کیونکہ رائٹرز کی نظر میں یہ فیصلہ ’جھوٹے الزامات‘ کی بنیاد پر مبنی ہے۔

رائٹرز کے ایڈیٹر ان چیف اسٹیفن جے ایلڈر کا کہنا تھا کہ ’آج کا دن میانمار اور صحافت کے لیے برا دن ہے اور اس فیصلے کا مقصد ان کی رپورٹنگ اور صحافیوں کو ڈرانا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

خیال رہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک ہفتے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے رخائن میں ہونے والے واقعات پر سروے جاری کیا تھا، جس میں میانمار کے آرمی چیف پر ’نسل کشی‘ کی مہم کی سربراہی کرنے اور روہنگیا کے خلاف ’ انسانیت سوز جرائم‘ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ میانمار کی سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو بھی ریاست میں اقلیتوں کی حفاظت کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سروے کے روز ہی فیس بک کی جانب سے میانمار کے آرمی چیف جنرل من آنگ ہلینگ اور دیگر اعلیٰ قیادت کے ذاتی اکاؤنٹس اور پیجز کو بلاک کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ’نسلی اور مذہبی منافرت‘ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں