چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام کمپنیوں سے پانی کے استعمال کا ڈیٹا طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں متفرق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق از خود نوٹس لیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پانی ہمارے لیے بہت قیمتی ہے، منرل واٹر کمپنیاں ٹربائن لگا کر مفت پانی مہنگے داموں بیچ رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لے لیا

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت تمام ایڈووکیٹ جنرلز کمپنیوں کو آگاہ کریں کہ شام تک ڈیٹا پہنچائیں، میں اس کیس کی سماعت کل (15 ستمبر) کو لاہور رجسٹری میں کروں گا۔

ہمیں پانی کی قدر کرنی چاہیے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں پانی کی کمی سے متعلق کیس بھی زیر غور آیا، اس دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پانی کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ تیل، گیس اور سونے کی قمت سے زیادہ مہنگا پانی ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پانی کا ایسے بے تحاشہ استعمال نہیں ہونا چاہیے، قومیں اپنے پانی کا ہمیشہ تحفظ کرتی ہیں، ہمیں بھی پاکستان کے پانی کی حفاظت کے لیے بہت زیادہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کے آبپاشی نظام سے آبیانہ بھی صحیح طور پر موصول نہیں ہوپتا، کل آبیانہ 2 ارب ہے لیکن اس میں سے ایک ارب سے بھی کم کی وصولی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ آبپاشی والے قیمتی پانی ضائع کر رہے ہیں جبکہ پنجاب والے بھی اپنا آبیانہ وصول نہیں کرتے۔

اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارا آبپاشی نظام بہت پرانا ہے، سیوریج اور لیکیج سے بہت زیادہ پانی ضائع ہوجاتا ہے، لہٰذا اسے از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے، ہمیں ان ماہرین کو بھی دیکھنا ہوگا، جنہوں نے زیر زمین پانی پر بہت تحقیق کی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے، پانی کی کمی سے متعلق خصوصی کمیٹی بنانے کا عندیہ دے دیا اور ماہرین سے رائے طلب کرلی۔

’اقلیتوں کے مقدس مقامات کا تحفظ کرنا‘

دوسری جانب سپریم کورٹ میں کٹاس راج مندر تالاب کیس کی بھی سماعت ہوئی ، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم لاہور جاتے ہوئے کٹاس راج تالاب کا معائنہ کرتے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کٹاس راج کے چشمے کا پانی ہندو عقیدے میں بہت مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہمیں اپنی اقلیتوں کے مقدس مقامات کا تحفظ کرنا ہے۔

عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پانی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

صنعتی یونٹس سے متعلق 5 روز میں رپورٹ طلب

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت بھی ہوئی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دوران سماعت ڈائریکٹر جنرل ایچ آر سیل سپریم کورٹ اور ڈی جی ماحولیات اسلام آباد کے صنعتی یونٹس کا معائنہ کرکے 5 دن میں رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ معائنہ کرکے بتایا جائے کہ کتنے صنعتی یونٹس فعال ہیں، کون سے یونٹس نے ابھی تک آلودگی روکنےکے لیے اقدامات نہیں کیے، اس بارے میں آگاہ کیا جائے، ساتھ ہی ایک مفصل اور جامع رپورٹ دی جائے تاکہ صورتحال واضح ہوسکے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جارہا کہ صنعتی آلودگی روکنے کے لیے اقدامات کر لیے گئے ہیں، جس پر ڈی جی ماحولیاتی تحفظ نے بتایا کہ ’انہوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ انہیں تو معائنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی، انہوں نے ہمیں واچ ڈاگ سے ڈاگ بنا دیا ہے‘۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مل مالکان کو عدالت کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں، یہ لوگ براہ راست لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، ہم ان کی 50، 50 لاکھ روپے کی سیکیورٹی ضبط کر لیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنہوں نے سیکیورٹی جمع نہیں کرائی، ان سے 8 فیصد مارک اپ لیں گے اور یہ سارا پیسہ ڈیم میں جانا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اس کیس کی سماعت 24 ستمبر تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے کٹاس راج کیس میں پنجاب حکومت پر جرمانہ عائد کردیا

دوران سماعت سیمنٹ یونٹس کا معاملہ بھی زیر غور آیا، اس پر چیف جسٹس نے فتح جنگ اور بیسٹ وے سیمنٹ یونٹس کی تفیصلات طلب کرلیں۔

ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ سیمنٹ فیکٹریوں کی وجہ سے زیر زمین پانی نیچے چلا گیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پورے پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں اور بتایا جائے کہ سیمنٹ فیکٹریوں نے پانی کے کنٹرول کے لیے کیا میکنزم اپنایا ہوا ہے۔

دوران سماعت سابق سیکریٹری ماحولیات نے بتایا کہ 2004 میں 2 پلانٹ لگائے گئے تھے جبکہ اس وقت ضرورت نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر ایف آئی اے سے اس معاملے کی تحقیقات کرواتےہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیمنٹ فیکٹریوں کے قیام کے وقت معیار برقرار نہ رکھنے پر تحقیقات کا حکم دے دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ محکمہ اینٹی کرپشن معاملے کی مکمل تحقیقات کرے اور ماحولیاتی اور صنعتی محکموں سمیت تمام اداروں کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں