اسلام آباد: جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملزمان کی جانب سے صحت خرابی کے دعوؤں پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ خواجہ انور مجید اور عبدالغنی مجید کی صحت کی تشخیص کے لیے اعلیٰ ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے جو معائنے کے بعد ان کے دعوؤں کی حقیقت بتاسکیں۔

خیال رہے کہ 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا اور وہ اب بھی زیرِ حراست ہیں۔

واضح رہے کہ ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے جو 17 ستمبر سے کیس کی دوبارہ سماعت کرے گا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی

جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے نام سامنے آنے پر انہیں بھی عدالت طلب کیا گیا تھا، تاہم ان کی جانب سے ہمیشہ تردید کی گئی کہ وہ اس کیس میں ملوث نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ 6 ستمبر کو سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات اور اس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے ملوث ہونے کے الزام کی انکوائری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان قریشی کو عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کردیا۔

جے آئی ٹی کے دیگر اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر شاہد پرویز، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے محمد افضل، نیب اسلام آباد کے ڈائریکٹر نعمان اسلم، اسٹیٹ بینک کے ماجد حسین اور ٹیکس کمیشن کے عمران لطیف منہاس شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: زرداری گروپ کی 2 نئی کمپنیوں کا انکشاف

یاد رہے کہ 12 ستمبر کو ایک رپورٹ کے ذریعے جے آئی ٹی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں اپنا سیکریٹریٹ قائم کردیا ہے۔

منی لانڈرنگ کیس

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور مفرور قرار

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

بعد ازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں