سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے دو بھائیوں کی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پھانسی روک دی۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست پر سماعت کی، سزائے موت پر نظر ثانی کی درخواست ملزم سکندر حیات اور جمشید علی نے دائر کی تھی۔

دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے بتایا کہ دونوں بھائیوں پر معمولی تنازع پر قتل کرنے کا الزام عائد ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کی سزائے موت کی توثیق کی جاچکی تھی۔

مزید پڑھیں : سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزائے موت معطل

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان 1993 سے جیل میں ہیں، انہیں کم عمر ہونے کا فائدہ دیا جانا چاہیے تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ سزا روکنے کے لیے ابھی نوٹس کرتے ہیں، کیس پھر سنیں گے۔

سپریم کورٹ نے فوری طور سزا معطلی کا حکم بذریعہ فون سپرنٹنڈنٹ جیل کو پہنچانے کے احکامات جاری کیے۔

خیال رہے کہ ملزمان جو آپس میں بھائی بھی ہیں، انہیں کل ( 26 ستمبر ) کو سینٹرل جیل جہلم میں پھانسی دی جانی تھی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ رواں ماہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 10 ملزمان کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم دے چکی ہے ۔

19 ستمبر کو سپریم کورٹ نے 3 ملزمان کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا جبکہ اس سے ایک روز قبل عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزا روکتے ہوئے اپیلوں کو یکجا کر کے اس کی سماعت کےلیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ : فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مزید 3 ملزمان کی سزائے موت معطل

17 ستمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزا پانے والے مجرم مجاہد کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا، مجاہد کے والد یار ولی نے بیٹے کی سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا تھا۔

رواں برس جولائی میں بھی پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزا پانے والے مجرم جنت کریم کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا۔

فوجی عدالت کی جانب سے مجرم جنت کریم کو پارا چنار میں امام بارگاہ پر حملہ کرنے کے کیس میں سزا سنائی گئی تھی جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اس کی توثیق کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں جولائی ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم شاکر اللہ، کی سزا پر عمل درآمد سے روک دیا تھا، اہل خانہ کے مطابق وہ 2010 سے دیر کے علاقے سے لاپتہ تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں