لاہور: پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت متنازع سرکاری کمپنیوں بالخصوص محکمہ بلدیات کی کمپنیوں اور چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم پر ان کی ملکیت میں موجود قیمتی گاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ گاڑیاں 4 ماہ قبل ضبط کیے جانے کے بعد سے سول سیکریٹریٹ کی عمارت کے تہہ خانے میں کھڑی ہیں۔

اس بارے میں متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ گاڑیاں کھڑی کھڑی زنگ آلود نہیں ہو رہیں، ان کی باقاعدگی سے جانچ کی جاتی ہے اور ہر ہفتے انہیں سول سیکریٹریٹ میں چلایا جاتا ہے تاکہ وہ رواں رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سادگی مہم: وزیر اعظم ہاؤس کی 102 میں سے 61 گاڑیوں کی نیلامی مکمل

واضح رہے کہ پنجاب میں نگراں حکومت کی بیوروکریسی نے نیب اور سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے جانے پر تمام سرکاری کمپنیوں اور گاڑیوں کو فہرست میں شامل کر دیا تھا، لیکن ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

اس بارے میں حکام کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے دور میں محکمہ بلدیات نے لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، بہاولپور اور سیالکوٹ میں کام کرنے والی سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں، لاہور اور فیصل آباد اور دیگر 9 اضلاع کی مویشی منڈیوں میں پارکنگ کا انتظام سنبھالنے والی کمپنیوں میں سیاسی بھرتیاں منسوخ کردی تھیں۔

لیکن یہ کمپنیاں تاحال موجود ہیں کیونکہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب پروفیسر حسن عسکری نے ان کا فیصلہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا تھا جبکہ موجودہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے باضابطہ درخواستوں کے باوجود ان کے مستقبل کے حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: میئر کراچی وسیم اختر کی سرکاری گاڑی چھن گئی

ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی بیانات کے مطابق سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنیاں شہباز شریف کی حکومت نے بنائی تھیں جن پر 82 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ انہوں نے کمرشل بینکوں سے قرض بھی حاصل کر رکھے ہیں جن کی ایک پائی اب تک لوٹائی نہیں گئی۔

اس کے علاوہ نگراں حکومت نے گاڑیوں کے بارے میں فیصلہ بھی نئی حکومت کے لیے چھوڑ دیا تھا جس پر موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس میں کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ گاڑیاں آزاد کمپنیوں نے اپنے بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بعد خریدی تھیں اور سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی پالیسی کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، مذکورہ پالیسی صرف حکومتِ پنجاب کے عہدیداروں کی زیر استعمال گاڑیوں پر لاگو ہوتی ہے جس کے تحت کسی کو لگژری گاڑی حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔

یہ بھی دیکھیں: وزیراعظم ہاؤس کی نیلام ہونے والی گاڑیاں پیش

ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے حوالے سے 2 نکات پر بحث جاری ہے جس میں گاڑیوں کی نیلامی کرنے یا ان کے استعمال کا معاملہ زیرِ غور ہے لیکن دوسرا آپشن بذاتِ خود ایک تنازع کی شکل اختیار کرسکتا ہے کہ وزرا، بیورو کریسی یا محکمہ پولیس میں سے کون ان گاڑیوں کو استعمال کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں