پشاور: گزشتہ چند سالوں میں تعلیم کے شعبے میں خطیر رقم خرچ کیے جانے کے باوجود خیبر پختونخوا میں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

صوبائی حکومت نے گزشتہ 6 برسوں میں صوبے کے تعلیمی شعبے میں 130 ارب روپے خرچ کیے۔

اس کے علاوہ ضلعی حکومتوں نے گزشتہ تین برس میں اپنے بجٹ سے سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کئی ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے۔

سال 18-2017 کی سالانہ اعداد و شمار رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں پرائمری سطح پر اسکول چھوڑنے والے طلبہ کی شرح 44 فیصد اور سیکنڈری سطح پر 40 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 13-2012 میں 6 لاکھ 85 ہزار طلبہ نے ابتدائی جماعتوں میں داخلہ لیا تھا لیکن 6 سال بعد 18-2017 میں اسکولوں میں 3 لاکھ 69 ہزار 163 طلبہ زیر تعلیم تھے، کیونکہ 3 لاکھ 15 ہزار 837 طلبہ اسکول چھوڑ چکے تھے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: اسکولوں میں بہتر نظام تعلیم کیلئے نیا منصوبہ

سیکنڈری اسکولوں میں تعلیم چھوڑنے والے طلبہ کی شرح 40 فیصد ہے، 14-2013 میں 2 لاکھ 98 ہزار طلبہ نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا تھا۔

تاہم 5 سال بعد 18-2017 میں صرف ایک لاکھ 69 ہزار 728 طلبہ ہی دسویں جماعت تک پہنچ سکے، جبکہ ایک لاکھ 28 ہزار 218 طلبہ نے تعلیم چھوڑ دی تھی۔

مئی 2018 میں جاری ہونے والے شعبہ تعلیم کے ریسرچ سروے نے بڑھتی ہوئی غربت، تعلیم میں عدم دلچسپی اور اسکول کی کمی کو اس شرح میں اضافے کی وجہ قرار دیا تھا۔

شعبہ تعلیم کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ شعبے کے ترقیاتی کام میں 130 ارب روپے کا بجٹ خرچ کیا گیا جبکہ ایک سو ارب روپے گزشتہ 6 سال میں صوبے کے سالانہ ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ شعبہ تعلیم میں سال 13-2012 میں 14 ارب 36 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

اسی طرح 14-2013 میں 20 ارب 26 کروڑ 30 لاکھ، 15-2014 میں 19 ارب 92 کروڑ 60 لاکھ، 16-2015 میں 11 ارب 40 کروڑ، 17-2016 میں 18 ارب 18 کروڑ 50 لاکھ جبکہ 18-2017 میں 15 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ان فنڈز کا استعمال بنیادی طور پر نئی عمارات کی تعمیر اور موجودہ عمارتوں کی حالت زار بہتر کرنے میں کیا گیا۔

علاوہ ازیں طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کرنے میں 10 ارب روپے، فرنیچر کی خریداری میں 7 ارب جبکہ اسکول میں زیر تعلیم بچیوں کو وظیفے کی مد میں 5 ارب خرچ ہوئے۔

اسکولوں میں آئی ٹی لیبز بنانے میں 3 ارب 50 کروڑ روپے، سیکنڈری ہائی اسکول میں 4 ارب روپے، اساتذہ کی تربیت میں 2 ارب روپے، اساتذہ کے الاؤنس، لڑکیوں کے اسکول بنانے اور اسکولوں کی نگرانی میں بھی رقم خرچ ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ 30 ارب روپے کی رقم اسکولوں میں کمرے بنانے، بیرونی عمارتیں تعمیر کرانے، بجلی کی فراہمی، واش رومز کی تعمیر اور پینے کے پانی جیسی سہولیات پر خرچ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا کابینہ کی ’لازمی تعلیم ایکٹ‘ کی منظوری

حکام کا کہنا تھا کہ شعبہ تعلیم کے پاس ضلعی حکومتوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں خرچ کیے گئے فنڈز سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔

ایک سرکاری اسکول کے ہیڈماسٹر نے ڈان کو بتایا کہ غربت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل ان کے تین طلبا نے اسکول آنا ترک کردیا تھا، انہیں بعد میں اطلاع ملی کہ انہوں نے مزدوری شروع کردی تھی کیونکہ ان کے والد گھر کا خرچ نہیں اٹھا پارہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’والدین سوچتے ہیں کہ جب ایک ماسٹرز ڈگری یافتہ شخص ملازمت حاصل نہیں کر سکتا تو وہ اپنے بچوں کو خاندان کی کفالت کے لیے پیسے کمانے اور مہارت حاصل کرنے کے لیے ورکشاپ بھیجتے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اپنی ورکشاپ بناسکیں۔

ضلعی ایجوکیشن افسر نے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافے کی وجوہات میں غربت، کلاس رومز میں تعلیمی ماحول کی کمی اور انگریزی کتب پڑھانے کے لیے اساتذہ کی صلاحیتوں میں کمی کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ قوانین کے تحت ایک کلاس میں 40 طلبہ بیٹھنے چاہئیں لیکن سرکاری اسکولوں کی ہر جماعت میں 100 سے زائد طلبہ موجود ہوتے ہیں، ایسی صورتحال میں پڑھائی کا ماحول نہیں بن سکتا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے تعلیم ضیااللہ بنگش نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں اسکولوں کی عمارتوں کی بہتری کے لیے فنڈز کی مد میں خطیر رقم جاری کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’اس بار ہم صوبے کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کا داخلہ یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ضیااللہ بنگش نے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی زیادہ تعداد کو اہم مسئلہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ان اسکولوں کے نزدیک ہی کرائے کی عمارتوں میں نئے اسکول قائم کیے جائیں گے۔

انگریزی پڑھانے میں مشکل کا سامنا کرنے والے اساتذہ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ شعبہ تعلیم ان اساتذہ کا ہر دو، تین ماہ بعد متعلقہ کتب سے ٹیسٹ لیے جانے پر غور کر رہا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 10 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں