اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس منی لانڈرنگ کا درست ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

اسد عمر کی جانب سے اس بات کا اعتراف قومی اسمبلی میں جمع کرائے تحریری جواب میں کیا گیا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے جواب میں کہا کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی جانے والی رقوم کا کل حجم معلوم نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں تبدیلی کے لیے بل جلد پارلیمان میں لایا جائے گا۔

دوسری جانب وزیر خزانہ نے اپنے تحریری جواب میں سال 2013 سے جون2018 تک حاصل کیے گئے ملکی اور غیر ملکی قرضون کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کیں۔

تحریری جواب کے مطابق اکتوبر 2013 سے جون 2018 تک 6 ارب 51 کروڑ روپے کے مقامی قرضے حاصل کیے گئے جبکہ اسی عرصے کے دوران 44 ارب 95 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے گئے۔

وزیر خزانہ کے مطابق اکتوبر 2013 سے اب تک 19 ارب 79 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 سے 2018 تک حاصل کردہ غیر ملکی قرضوں پر 24 ارب 32 ڈالر کا سود بنتا ہے۔

وزیر خزانہ نے اپنے جواب میں بتایا کہ غیر ملکی قرضوں پر سود کی مد میں 5 سال کے دوران 5 ارب 80 کروڑ ڈالر ادا کیے گئے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی حکومت نے ملک سے غیر قانونی طور پر رقم کی بیرونِ ملک منتقلی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے بین الاقوامی احکامات کے ادارہ جاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قانونی سقم کے باعث ایف بی آر منی لانڈرنگ اختیارات سے محروم

وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ایف آئی اے ایکٹ 1974، کسٹم ایکٹ 1969، منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ برائے سال 1947 پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ’ہنڈی، حوالہ‘ سمیت رقم کی منتقلی کے غیر قانونی ذرائع اور ٹیکس سے بچنے کے طریقوں پر نظر رکھنے کے لیے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے قوانین میں ترمیم کی تجاویز کو اجلاس میں حتمی شکل دی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں