’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘

09 نومبر 2018
گزشتہ برس 7 لاکھ روہنگیا مسلمان میانمار سے ہجرت ہر مجبور ہوئے تھے  — فوٹو: اتے پی
گزشتہ برس 7 لاکھ روہنگیا مسلمان میانمار سے ہجرت ہر مجبور ہوئے تھے — فوٹو: اتے پی

بنگلہ دیش کے علاقے میں متحرک امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے بعد میانمار واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں واپسی کی اجازت دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں ان کی شہریت کی ضمانت اور سیکیورٹی کے خدشات تاحال قائم ہیں۔

تاہم، دونوں حکومتوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ نومبر کے وسط سے بڑے پیمانے پر روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کریں گے جبکہ سماجی کارکنان کا کہنا تھا کہ درحقیقت رخائن پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

مزید پڑھیں : میانمار میں روہنگیا نسل کشی اب بھی جاری ہے، اقوام متحدہ

42 امدادی ایجنسیوں اور سول سوسائٹی گروہوں نے ایک بیان میں اس اقدام کو ’خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ (روہنگیا) خوفزدہ ہیں کہ اب وہ میانمار واپس جائیں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا اور موصول ہونے والی اطلاعات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’انہوں نے محفوظ مقام کی تلاش میں بنگلہ دیش کا رخ کیا تھا اور پناہ دینے پر بنگلہ دیشی حکومت کے شکر گزار ہیں‘۔

اوکسفام، ورلڈ ویژن اور سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارے میانمار اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والے گروہوں میں شامل تھے اور انہوں نے ہی اس بیان پر دستخط کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: حقائق سامنے لانے پر 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید

انہوں نے کہا کہ 2012 میں رخائن میں تشدد کی فضا پروان چڑھنے کے بعد سے ایک لاکھ 20 ہزار روہنگیا سے تعلق رکھنے والے افراد 6 برس سے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

رخائن کے علاقے مانگ ڈا کے منتظم مینیت خائنغ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 15 نومبر سے روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں فی روز ایک سو 50 افراد کی آمد کے حساب سے مجموعی طور پر 2 ہزار 2 سو افراد کو واپس لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم صرف 15 تاریخ کو ہی اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ ہماری بتائی گئی فہرست میں سے کتنے لوگ واپس آرہے ہیں یا نہیں‘۔

دوسری جانب بنگلہ دیشی حکام پریشان ہیں کہ روہنگیا مسلمان جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر حصوں میں کشتی کےذریعے سفر کرنے کا خطرہ دوبارہ نہ مول لیں۔

مزید پڑھیں: ’مسلمانوں کی نسل کشی پرمیانمار فوج کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں‘

خیال رہے کہ گزشتہ برس میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 7 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

جس کے بعد اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں