اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر میانمار کے اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔

اقوام متحدہ نے روہنگیا میں پرتشدد واقعات کے لیے ’جینوسائڈ ‘(نسل کشی) کا لفظ استعمال کیا ہے جو وہ غیر اہم واقعات کے لیے استعمال نہیں کرتی۔

تفتیش کاروں کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کیے گئے جرائم نسل کشی کی قانونی تعریف پر پورا اترتے ہیں جیسے بوسنیا اور روانڈا میں تقریباً ایک صدی قبل ہونے والے جرائم تھے۔

3 رکنی’ فیکٹ فائنڈنگ مشن ‘ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انسانی حقوق کونسل کے ساتھ کام کررہا ہے، جنہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کے اکاؤنٹ، سیٹیلائٹ فوٹیج اور دیگر معلومات کی بنیاد پر ترتیب کردہ رپورٹ پیر (27 اگست کو) جاری کی۔

انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا ہے کہ نسل کشی کی کوشش ایک بہت مشکل معیار ہے، اس میں یہ پتا لگانا ضروری ہے کہ قومیت ،نسل، مذہب یا کون سی ایسی وجہ تھی جس نے اس اقدام پر آمادہ کیا ہو۔

رپورٹ کے مطابق’ رخائن ریاست میں کیے جانے والے جرائم اس شدت کے ہیں جو نسل کشی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ‘اس میں کہا گیا ہے کہ ملٹری کمانڈروں اور ان جرائم میں ملوث افراد نے روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے اور انہیں ملک سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے تباہی کا منصوبہ بنایا۔

رپورٹ میں میانمار فوج کے 6 حکام کے خلاف کارروائی کو لازم قرار دیا گیا ہے جس میں کمانڈر انچیف من آنگ ہلانگ کا نام بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں : میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے چیف برائے انسانی حقوق کے آفس میں ایسے ناموں کی دوسری فہرست مستقبل میں ضروری عدالتی کارروائی کے لیے رکھی جائی گی۔

امریکا اور یورپی یونین نے میانمار کے کچھ فوجی حکام پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں تاہم ان میں کمانڈر ان چیف کا نام شامل نہیں۔

رپورٹ میں میانمار میں انسانی حقوق کی حالیہ معلومات کے لیے ایک نظام بنانے کی تجویز دی گئی یے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو 2011 سے اس معاملے میں اپنے کردار پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے تھی، اگر کوشش کی جاتی تو اس بحران سے بچا جاسکتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق امن نوبل ایوارڈ یافتہ آنگ سانگ سوچی کو اپنا کردرا ادا نہ کرنے پر اس انسانی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ کہ وہ رخائن ریاست میں کیے جانے والے مظالم کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکتی تھیں۔

ٹیم نے اندازہ لگایا تھا کہ 10 ہزار افراد اس تشدد کا شکار ہیں لیکن تفتیش کاروں کو متاثرہ علاقوں سے متعلق کوئی علم نہیں۔

تفیتیش کاروں کا کہنا ہے کہ میانمار میں پیش آنے والے حالات کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ یا خصوصی ٹربیونل میں اٹھایا جانا چاہیے۔

اقوم متحدہ کی حمایت یافتہ انسانی حقوق کونسل نے اس تحقیقاتی مشن کو 6 ماہ پہلے تشکیل دیا تھا، جب میانمار میں جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تفتیش کاروں نے سیکٹروں روہنگیا پناہ گزینوں سے انٹرویو اور سیٹیلائٹ فوٹیج کا استعمال کرکے رپورٹ میں جرائم کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں گینگ ریپ، گاؤں کے رہائشیوں کو نذر آتش کرنا، غلام بنانا اور بچوں کا قتل جن میں سے اکثر کو ان کے والدین کے سامنے قتل کیا جانا شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

ٹیم کو میانمار تک رسائی نہیں دی گئی اور حکومتی ردعمل اور تعاون کی کمی بھی تھی۔

اقوام متحدہ کے حکام اور انسانی حقوق سے متعلق کئی مہینوں سے میانمار میں ہونے والی نسل کشی سے متعلق ثبوت کی تلاش میں تھے اور امریکا نے بھی گزشتہ برس کہا تھا کہ میانمار میں نسل کشی کی جاری ہے۔

لیکن چند ماہرین نے اس مسئلے کی گہرائی تک تحقیق اس طریقے سے کی کہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے پاس میانمار کی منظوری بھی موجود ہو کیونکہ وہ انسانی حقوق کونسل کے 47 ارکان میں سے ایک ہے۔

یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں گزشتہ برس فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔

میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی، جہاں ان کی حالت غذائی قلت کے باعث ابتر ہوگئی تھی

تبصرے (0) بند ہیں