اسلام آباد: مبینہ انتخابی دھاندلی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے ضابطہ کار طے کرنے کے لیے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔

پارلیمانی کمیٹی کی 8 رکنی ذیلی کمیٹی کے کنوینر وزیر تعلیم شفقت محمود ہوں گے۔

ذیلی کمیٹی دو ہفتوں میں اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی کو دے گی۔

پارلیمنٹ کی انتخابی جائزہ کمیٹی کا دوسرا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین و وزیر دفاع پرویز خٹک کی صدارت میں ہوا۔

اجلاس میں انتخابی پارلیمانی کمیٹی کے ضوابط کار طے کرنے کے لیے سب کمیٹی کے ناموں پر اتفاق کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم

ذیلی کمیٹی میں حکمراں اتحاد کی طرف سے شفقت محمود، فواد چوہدری، بیرسٹر سیف اور سرفراز بگٹی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے رانا ثنا اللہ، نوید قمر، حاصل بزنجو اور مولانا واسع شامل ہوں گے۔

پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین پرویز خٹک کی جانب سے ذیلی کمیٹی کے کنویںر کے طور پر شفقت محمود کا نام تجویز کیا گیا جس پر کمیٹی کے ارکان نے اتفاق کرلیا۔

کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں 30 میں سے 16 ارکان نے شرکت کی، جن میں حکمراں اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے 8، 8 ارکان شامل تھے۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ 'ذیلی کمیٹی 14 روز میں 'ٹی او آرز' طے کرے گی، تاہم اگر ضرورت پڑی تو مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔'

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'جس ادارے کو بلانا پڑا کمیٹی میں بلائیں گے، کمیٹی کے اختیارات کے مطابق فیصلہ کریں گے، وزیر اعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم کسی سے زیادتی نہیں کریں گے اور نہ ایسا کام کریں گے جس سے کل ہم پر انگلیاں اٹھ سکیں۔'

مزید پڑھیں: انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات: پرویز خٹک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مقرر

میڈیا سے گفتگو میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 'انتخابات میں دھاندلی ثابت کرنا مشکل نہیں، دھاندلی کے حوالے سے تمام ثبوت کمیٹی کے سامنے رکھیں گے، حکومت نے بے جا رکاوٹ نہ ڈالی تو تمام ثبوت سامنے آجائیں گے۔'

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رحمٰن ملک نے کہا کہ 'ٹی او آرز کمیٹی نے صرف مینڈیٹ طے کرنا ہے، یہ سوال اہم ہے کہ کیا کمیٹی کے اختیارات محض قائمہ کمیٹی والے ہیں، قائمہ کمیٹیاں تو صرف سفارشات ہی دے سکتی ہیں، عملدرآمد کا اختیار نہیں ہوتا۔'

انہوں نے کہا کہ 'یہ دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی ہے، اس لیے اس کی رپورٹ بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہونی چاہیے۔'

تبصرے (0) بند ہیں