سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کو پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی عدالت نے ’منرل واٹر‘ کمپنیوں کے فروخت کیے جانے والے پانی کو جانچنے کے لیے کمیٹی قائم کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے زیر زمین پانی نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران منرل واٹر کمپنی نیسلے کے نمائندے، ڈاکٹرز اور ماہرین پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران نیسلے کے نمائندے نے بتایا کہ ہماری کمپنی 30 سال سے کام کر رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ 11 سال سے کم عمر کے بچے گندے پانی کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں، قوم گڑھے کا پانی پی لے گی، آپ اپنے منافع کی پرواہ کریں قوم کی پرواہ چھوڑ دیں۔

مزید پڑھیں: میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قوم کے مسیحا ہیں آپ نہیں، اگر آپ کو ایک روپے فی لیٹر ادائیگی قبول نہیں، تو صنعت بند کرکے چلے جائیں، جس پر نمائندہ نیسلے نے کہا کہ پھانسی دے دیں لیکن یہ نہ کہیں کہ منافع کے لیے کہہ رہا ہوں، ہم 30 سال سے کمپنی چلا رہے ہیں، پوری دنیا کی لیبارٹری ہمارے پانی کو ٹیسٹ کر رہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے وکیل میرے پاس سفارشات لے کر آتے رہتے ہیں، اربوں روپے کا پانی مفت استعمال کیا ہے کچھ تو واپس کریں، جس پر نمائندہ نیسلے نے کہا کہ آپ یا صنعت بند کر کے جائیں گے یا پھر مواقع دے کر جائیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک بوتل پر کتنے پیسے کمائے ہیں؟ بوتل والی کمپنیاں مفت میں اربوں روپے کماتی ہیں، کسی کے منافع کے لیے عوام کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ لیٹر کی بوتل 50 روپے کی فروخت ہوتی ہے، جو پیسے اکھٹے ہوں گے پانی کی بہبود پر ہی خرچ ہوں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے منرل واٹر کمپنی کی رپورٹ دیکھی ہے اس میں کوئی منرل نہیں ہے، اپنے ذاتی فائدے کے لیے پانی والی کمپنیوں نے پانی چوری کیا، کمیشن بنائیں گے کہ کتنا پانی چوری ہوا۔

اس دوران سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر احسن عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ جو بات کہوں گا وہ اصل میں قوم کی بات ہوگی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مسترد شدہ پانی کو تلف کرنا چاہیے، ہمارے پاس پانی نہیں ہے، آنے والی نسلیں ہم سے پانی کے بارے میں پوچھیں گی۔

عدالت میں سائنسدان احسن نے بتایا کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں زیر زمین پانی کو خشک کر رہی ہے جبکہ ان کے پاس پانی کے معیار کو جانچنے کے آلات ہی نہیں ہیں جبکہ پانی کو جانچنے کے لیے اسٹاف کو طریقہ کار ہی معلوم نہیں، یہ کمپنیاں زیر زمین کو بھی خراب کر رہی ہیں۔

دوران سماعت ایک خاتون ماہر بھی پیش ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ وہ حیاتیات کی ماہر ہیں اور یہاں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی سے منظوری لیے بغیر ہی پانی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس معاملے کو درست کرنا ہے، رازق اللہ تعالیٰ ہے، 30 برس بعد آنے والی نسل کو پانی نہ ملا تو کیا جواب دیں گے، ہمت کریں فیکٹری بند کریں، میں دیکھتا ہوں کتنی دیر بند رکھ سکتے ہیں۔

دوران سماعت ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں نے کسی ماحولیاتی کمپنی سے سرٹیفکیٹ نہیں لیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے بتائیں بوتلوں والا پانی کیسے تیار کیا جاتا ہے، بوتل میں بند پانی کا معیار کیا ہے؟ جس پر احسن صدیقی نے بتایا کہ دریائے سندھ کے پانی سے بیکٹیریا ختم کردیں تو بوتل بند پانی سے ہزار گناہ بہتر ہے۔

دوران سماعت مشروبات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی ممالک میں پیپسی، کوکا کولا بند ہوچکی ہیں، یہاں بند کیوں نہیں ہوسکتی، یہ بچوں کو بیمار کررہے ہیں اور کہتے ہیں قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میں نے بوتل کا پانی بند کردیا، قوم بھی گھڑے کا پانی پی لے، چیف جسٹس

بعد ازاں عدالت نے زیر زمین پانی سے متعلق کیس میں مزید ریمارکس دیے کہ برسوں سے یہ لوگ بغیر ادائیگی زیر زمین پانی نکال رہے ہیں، کمپنی مالکان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے تمام صوبوں کو حکم دیا کہ وہ پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کریں اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کریں۔

اس کے علاوہ عدالت نے سائنسدان ڈاکٹر احسن صدیقی کی سربراہی میں ڈی جی ماحولیات، ڈی جی فوڈ اتھارٹیز پر مشتمل ٹیم بناتے ہوئے ہدایت کی کہ ٹیم پانی کی کمپنیوں سے مل کر ان کے پانی کے معیار کا معائنہ کرے اور 10 روز میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔

اس کے علاوہ اگر کسی کمپنی کا پانی معیار سے کمتر ہوا تو اسے اپنا معیار بہتر کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں