اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی زمین الاٹمنٹ سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتزاز احسن نے مزید دستاویزات جمع کرانے کی درخواست دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اپنے دلائل دیں پھر درخواست کو دیکھیں گے جبکہ ضرورت پڑی تو مزید دستاویزات منگوا لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تخت پڑی کی زمین سرکاری تھی اس لیے چار کنال خرید کر باقی شامل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ تخت پڑی زمین کا سرکاری ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی دستاویزات پر انحصار کر کے ہی فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب، ایک بات واضح کردوں ایک انچ اراضی پر بھی قبضہ ہوا تو بخشیں گے نہیں، لوگوں کو مار کر زمینوں پر قبضہ کیا گیا، عدالت نے رعایت دینا ختم کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمین کی الاٹمنٹ میں سابق وزیر اعلیٰ اور دیگر لوگوں کا کیا کردار ہے، وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر جنگلات کی زمین دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن کو دھوکے سے زمین دی گئی، چاندی دے کر سونا لے لیا گیا‘

وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے کوئی زمین الاٹ نہیں کی جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 270 کنال زمین وزیر اعلیٰ کے خاندان کو ملی۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سے زمین ملک ریاض تک کیسے پہنچی، سب انکوائری میں سامنے آجائے گا۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے فیصلہ سمری پر لیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلی کو سمری ملی بھگت سے گئی ہو گی، وزیر اعلیٰ کو زمین الاٹ کرنے کا اختیار کس نے دیا، نیب کو بھجوانے کے لیے یہ بہترین کیس ہے۔

دوران سماعت ملک ریاض نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آگئے تو چیف جسٹس نے ان پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میرے سامنے ملک ریاض ایک عام آدمی ہیں، ملک ریاض عدالتی کارروائی میں بار بار مداخلت کرتے ہیں، کیوں نہ انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیں، وکیل کے دلائل پسند نہیں تو وکیل تبدیل کر لیں، جائیں اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارا کا سارا اختیار کے ناجائز استعمال کا کیس ہے، 10 ہزار درخت اکھاڑ دیئے گئے، اس وقت وزیر اعلیٰ کون تھا؟ کس اختیار اور قانون کے تحت زمین الاٹ ہوئی؟

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جنگل میں منگل ہوگیا، یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے، زمین کی حد بندی وزیراعلیٰ نے خود کرائی، منصوبہ شروع ہونے کے بعد زمین چوہدری خاندان کے بچوں کو تحفے میں دی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماحولیاتی نقصان کا ازالہ کون کرے گا جس پر وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ درخت کاٹنے کا کوئی ثبوت نہیں۔

مزید پڑھیں: نیب نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف باقاعدہ تفتیش کا آغاز کردیا

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کبھی زمین کی حد بندی کی سمری وزیر اعلیٰ کو نہیں گئی، حد بندی کے بعد زمین وزیر اعلیٰ کے بچوں کو بھی منتقل ہوئی، جنگل کا جنگل اجاڑ دیا گیا، بحریہ ٹاون نے پہاڑ کا پہاڑ تباہ کر دیا، ملک ریاض سے ایک ہزار ارب زیادہ نہیں مانگا تھا۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنی زمین پر موجود درخت کاٹے تھے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک کنال پر قبضہ ہوجائے تو پولیس بندے کو پکڑ کر لے جاتی ہے، حیران ہوں اتنے بڑے قبضے کے بعد لوگ آزاد گھوم رہے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امریکا میں صدر کھوکھا الاٹ نہیں کر سکتا، وزیر اعلیٰ حکومت کا انچارج ہوتا ہے، چوہدری اعتزاز صاحب یہ نہ ہو بات کیس سے آگے چلی جائے، نقاب اٹھایا تو چہرے سامنے آجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ حکومت کا سربراہ ہونے کے ساتھ ایک خاندان کے سربراہ بھی تھے، انہوں نے ریاست کی زمین کا تحفظ کرنا تھا نہ کہ زمین الاٹ کرنا تھی۔

عدالت نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی زمین الاٹمنٹ سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

معصومین Nov 14, 2018 07:40pm
کاش ملک کے سارے چور سیاستدان، جرنیل، صحافی، وکلا بے نقاب ہوجائیں۔عدل علی ع کا تقاضہ تھا کہ اگر کسی نے ناجائز دولت اکٹھی کی ہے تو اس کی واپسی لازم ہے