پاکستانی شوہر چینی کیمپوں میں ’نظر بند‘ مسلمان بیویوں کے منتظر

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2018
میر امان کی 2 بیٹیاں، 16 سالہ شہناز اور 12 سالہ شکیلہ—فوٹو اے پی
میر امان کی 2 بیٹیاں، 16 سالہ شہناز اور 12 سالہ شکیلہ—فوٹو اے پی

اسلام آباد: پاکستانی تاجر چوہدری جاوید عطا نے آخری مرتبہ اپنی چینی اہلیہ کو اس وقت دیکھا تھا جب ایک سال قبل وہ چین کے شمال مغربی حصے سنکیانگ سے اپنے ویزے کی تجدید کروانے اور آبائی وطن پاکستان واپس آنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے تھے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انہیں یاد تھا کہ جب ان کی اہلیہ سے آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ ’جب آپ یہاں سے چلیں جائیں گے تو یہ لوگ مجھے کیمپ میں لے جائیں گے اور پھر میں واپس نہیں آؤں گی’۔

یہ اگست 2017 کی بات تھی، جب جاوید عطا کی چین کے صوبے سنکیانگ کی رہائشی اور یوغور مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی آمنہ مناجی سے ان کی شادی کو 14 برس بیت چکے تھے۔

جاوید عطا ان سیکڑوں پاکستانیوں میں سے ہیں، جن کی شریک حیات کو غائب کردیا گیا، ان کے مطابق ایسے پاکستانیوں کی تعداد 200 ہے اور انہیں ایسے کیمپوں میں لے جایا گیا ہے جنہیں چینی حکومت ’تعلیمی کیمپ‘ کہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں یوغور افراد کی قید کے خلاف بھارتی مسلمان سراپا احتجاج

خیال رہے کہ چین پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی مسلمان آبادی کے لاکھوں افراد کو نظر بند کرچکی ہے تاکہ انہیں ’دوبارہ تعلیم‘ دے کر ان کے عقائد سے دور کیا جاسکے، یہ اقدام اشتعال انگیز حملوں اور فسادات کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا جس کا الزام حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں پر لگایا جاتا رہا ہے۔

یوغور اور قازاق نسل سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والی چیزیں مثلاً 5 وقت کی نماز پڑھنا، غیر ملکی ویب سائٹ کا وزٹ کرنا یا بیرونِ ملک سے موصول ہونے والی رشتہ داروں کی کالز پر سزا کے طور پر کیمپ میں بھیجا جاسکتا ہے۔

جاوید عطا کا کہنا تھا کہ ’چینی حکام انہیں اسکول کہتے ہیں لیکن وہ قید خانے ہیں، جہاں جانے والے نکل نہیں سکتے، ‘بھاری چینی سرمایہ کاری سے ہاتھ دھونے کے خطرے اور سیاسی اور اقتصادی معاملات کی وجہ سے پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک، چین میں مسلمانوں کی حالتِ زار کے بارے میں خاموش ہیں۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے واشنگٹن میں موجود ولسن سینٹر کے تحت ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کیگلمین کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی تعلقات میں ہمیشہ سرد اور ٹھوس مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کی پامالی: ’اگر اقوامِ متحدہ چین سے باز پرس نہیں کرسکتی تو کون کرے گا؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم دنیا کا چین کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر خاموشی کی وجہ اگلی سپر پاور سے اپنے قریبی تعلقات استوار رکھنا ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب جاوید عطا کے لیے یہ صرف ان کی اہلیہ سے علیحدگی نہیں بلکہ انہوں نے 5 اور 7 سال کے اپنے 2 بیٹوں کو بھی چھوڑا تھا جن کے پاسپورٹ چینی حکومت نے ضبط کرلیے تھے اور اب وہ ان کی اہلیہ کے خاندان کی سرپرستی میں ہیں، ورنہ حکام انہیں یتیم خانوں میں ڈال دیتے۔

بعد ازاں جاوید عطا 2 مرتبہ کچھ ماہ کے لیے چین گئے لیکن ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باعث انہیں واپس آنا پڑا، اب سنکیانگ میں موجود اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنا ان کے لیے انتہائی پیچیدہ عمل ہے جو وہاں موجود پاکستانیوں کی مدد سے ممکن ہوپاتا ہے۔

اپنے بچوں کے بارے میں پریشان جاوید عطا کا کہنا تھا کہ اب 8 سے 9 ماہ ہونے والے ہیں میں نے انہیں نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بات ہوسکی ہے، البتہ گزشتہ ہفتے ان کے دوست نے ان کے برادرِ نسبتی سے بات کروائی، جنہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بچے خیریت سے ہیں لیکن ان کی اہلیہ کا کچھ پتہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین: ‘یوغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے‘

واضح رہے کہ چین کی جانب سے یوغور مسلمانوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پالیسی کا مقصد سنکیانگ میں ’استحکام اور پائیدار امن‘ ہے لیکن چینی صدر زی جِن پنگ کی جانب سے شورش کا شکار خطے کو مغلوب کرنے کے اقدامات مثلاً لاکھوں یوغور مسلمانوں کو نظر بند کرنے کے اقدام نے اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں اور امریکی حکومت کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔

اس بارے میں پاکستان میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات کا بنیادی اصول دونوں ممالک کو ان کے ذاتی معاملات پر تبصرہ کرنے سے روکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور خاص کر مسلم دنیا میں، چینی موقف کو بلا چوں چراں تسلیم کرلیا جاتا ہے، جیسے وہی ٹھیک ہے‘۔

حالیہ کچھ ماہ میں پاکستانی مردوں کی بڑی تعداد نے اپنی بیویوں کی رہائی کے سلسلے میں آواز اٹھانے کے لیے بیجنگ کا رخ کیا، جن میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد مرتبہ اس سلسلے میں چین میں تعینات پاکستانی سفیر مسعود خالد سے ملاقات بھی کی اور انہیں چینی حکام کے سامنے اپنے مسائل پیش کرنے کا بھی کہا۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں یوغور مسلمانوں کو قید کیے جانے پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

اس کے علاوہ ایسی ہی کہانی ایک اور پاکستانی شہری میر امان کی بھی ہے، جو 25 سال قبل مزدور کی حیثیت سے کام ڈھونڈنے چین گئے، وہاں ان کی ملاقات مہربان گل سے ہوئی۔

دونوں نے شادی کی اور جوڑے نے سخت محنت کر کے وہاں ایک ہوٹل بھی خریدا، ان کی 2 بیٹیاں 16 سالہ شہناز اور 12 سالہ شکیلہ ہیں، جو والد کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہیں۔

گزشتہ برس میر امان نے اکیلے چین جانے کی کوشش کی لیکن حکام نے اہلیہ کے بغیر اکیلے سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے وہ دونوں اکھٹے سنکیانگ پہنچے، وہاں پہنچنے پر ان کی اہلیہ کو روزانہ پولیس تھانے آنے کا حکم دیا گیا جہاں انہیں کمیونسٹ پارٹی کی کتابیں پڑھنے کے لیے دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اردو میں لکھی ہوئی کوئی چیز دیکھتے یا مذہب سے متعلق کوئی شے مثلاً جائے نماز وغیرہ تو اسے ضبط کرلیتے، بعدازاں کچھ ہفتوں بعد میر امان کو چین سے واپس جانے کا حکم دے دیا گیا جبکہ ان کے پاس 6 ماہ کا ویزا تھا، ان سے کہا گیا کہ وہ ایک ماہ بعد واپس آسکتے ہیں لیکن جب ایک ماہ بعد وہ واپس چین پہنچے تو ان کی اہلیہ غائب تھیں۔

مزید پڑھیں: چین: کمیونسٹ پارٹی کے یوغور مسلم رہنما کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات

4 ماہ تک وہ پولیس کے پیچھے پڑے رہے اور سب کے سامنے خودکشی کی دھمکی بھی دی جس کے بعد انہیں ان کی اہلیہ کو دیکھنے کی اجازت دے دی گئی جنہیں ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں صرف ایک گھنٹے کے لیے لایا گیا۔

ملاقات کے بعد میر امان سے کہا گیا کہ وہ انتظامیہ کے لیے مسائل پیدا نہ کریں اور پاکستان چلے جائیں اور اب وہ نہیں جانتے کہ ان کی اہلیہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔


یہ خبر 18 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں