سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی منظور کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل رضا عابدی کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سیعد کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ تنقید ایک حد تک ہونی چاہیے، جائز تنقید پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔

فیصل رضا عابدی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے 70 دن تک اڈیالہ جیل میں رہتے ہوئے عدالت کی توقیر سے متعلق بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف انٹرویو: فیصل رضا عابدی پر فرد جرم عائد

جسٹس یحییٰ آ فریدی نے ایڈشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ فیصل رضا عابدی کو عدالت کے باہر سے گرفتار کیوں کیا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ سابق سینیٹر کو ایک علیحدہ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔

عدالت نے فیصل رضا عابدی کی جانب سے جمع کروائی گئی غیر مشروط معافی کو منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا یہ کیس سپریم کورٹ کی حد تک ختم ہوا، دیگر عدالتوں میں چلنے والے کیسز اپنے میرٹس پر ہی چلائے جائیں گے۔

خیال رہے کہ 17 دسمبر کو سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں اپنا معافی نامہ جمع کروایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فیصل رضا عابدی دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار

عدالت عظمیٰ میں معافی نامہ سپریم کورٹ میں وکیل کے توسط سے جمع کروایا گیا تھا جس میں فیصل رضا عابدی نے کہا تھا کہ 'میں خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں'۔

معافی نامے میں کہا گیا تھا کہ میں فیصل رضا عابدی عدالت سے معافی مانگتا ہوں اور مستقبل میں احتیاط کروں گا۔ میں نے اڈیالہ جیل سے بذریعہ ڈاک معافی نامہ سپریم کورٹ بھیجوایا تھا لیکن وہ واپس کر دیا گیا، اس لیے دوبارہ معافی نامہ بذریعہ درخواست جمع کروا رہا ہوں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے معافی نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کسی بھی ریاست کا شہری اس وقت تک مہذب شہری نہیں کہلواتا جب تک وہ عدالت کا احترام نہ کرے، آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت اداروں کے ساتھ وفاداری اور ان اداروں کی عزت کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ فیصل رضا عابدی نے ایک ویب ٹی وی چینل کے پروگرام کے دوران عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی،جس کے بعد سپریم کورٹ نے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کی جانب سے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگروم میں مبینہ طور پر عدلیہ مخالف بیان دینے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

تاہم چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے فیصل رضا عابدی کی جانب سے مبینہ طور پر عدلیہ مخالف بیان دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد کیس سپریم کورٹ کے دوسرے بینچ کو بھجوا دیا گیا تھا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے فیصل رضا عابدی کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ ایف آئی اے اور پولیس ان کے خلاف علیحدہ علیحدہ تحقیقات کر رہی تھی۔

ایف آئی اے میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق ویب چینل 'نیا پاکستان' پر 2 جولائی کو نشر ہونے والے پروگرام 'صبح صبح نیا پاکستان' میں فیصل رضا عابدی نے ارادی طور پر اور مذموم مقاصد کے تحت چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف نازیبا اور توہین آمیز زبان استعمال کی جو حکومت، عوام اور معاشرے میں خوف اور دہشت پھیلانے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: فیصل رضا عابدی دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار

علاوہ ازیں 10 اکتوبر کو فیصل رضا عابدی توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، جس کے بعد انہیں دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

11 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت نے فیصل رضا عابدی کی اخراج مقدمہ اور عبوری ضمانت کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

تھانہ سیکریٹریٹ پولیس نے دو روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر فیصل رضا عابدی کو ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا۔ ڈسٹرکٹ سیشن جج نے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں